Monday 2 December 2019

Mrs. H.D Taylor

Mrs. Hazel Deneys Taylor

Chairman Ex-Renala State at CEBG Okara 1969-1991. Died 11-09-1994
یہ تاریخی اور قابلِ ستائش بنگلہ آج کل (میم دی حویلی ) کے نام سے جانا جاتا ہے۔اب یہ صرف ایک بُھوت بنگلہ کا منظر پیش کرتا ہے۔آج ہمارا وزٹ صرف ایک بنگلہ کی طرف نہیں تھا!وضاحت صرف اِس اَمر کی ہے کہ زمبابوے کی رہائشی خاتون کو کیسے ہمارے ملک پاکستان کے شہر اوکاڑا کی تحصیل رینالہ خورد سے اِس قدر محبت ہوگئی کہ مزاحمت کے باوجود بھی اُس نے اس ملک کی سرزمین کو ترق کرنا مناسب نہیں سمجھا۔جبکہ اُس کا بیٹا بھی اُسے واپس آپنے وطن لیجانے آیا لیکن اُس نے یہاں سے جانے سے انکار کردیا۔اگر اب بھی اِس حویلی کا وزٹ کیا جائے تو دیکھنے والا باآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اِس بنگلہ میں رہنے والی خاتون کی ایک ایک یاد اب بھی اس بنگلے سے منسلک ہے۔جبکہ چور،چکوں نے کچھ باقی نہیں چھوڑا لیکن پھر بھی کچھ باقیات ابھی باقی ہیں جو ہیزل کی یاد تازہ کرتی ہیں۔
یہ موسم سرما 2دسمبر اتوار2019 کی صبح تھی جب ہم نے اس تاریخ حویلی کی طرف جانے کا ارادہ کیا۔کافی عرصے سے جانے کا ارادہ بن رہا تھا لیکن جا نہ سکے۔لیکن اس بار ہم نے آپنے ارادے کو عملی جامہ پہنا دیا۔اس خوبصورت اور دلچسپ سفر میں عدنان شفیق میرے ہمراہ تھے۔یہ تاریخی حویلی رینالہ شہر (چوچک روڈ) پر 4کلومیٹر کی مسافت پر 4/1آر ،میں ملٹری فارم کی زمین پرواقع ہے۔اس جگہ پر ہرخاص وعام کو غروج و خروج کی اجازت نہیں ۔
یہ قدیم حویلی فن ِ تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔نہایت ہی شاندار اور نفیس بنگلہ ہے۔نقشہ و تعمیر کے لحاظ سے ہر چیز قابل ِ ستائش ہے۔اب یہ بنگلہ بوسیدہ ہوچکا ہے لیکن پھر بھی خوبصورتی کا شہکارہے۔اک گُمان ہوتا ہے کہ جب یہ بنگلہ آپنی شان وشوکت کے ساتھ آراستہ تھا۔تب یہ لاجواب ہوگا۔اس کے اندر لکڑی کافرش ہے اور تعمیراتی کام میں بھی عالی قسم کی لکڑی استعمال کئی گئی ہے۔جو اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتی ہے۔اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی زمانے کے سردوگرم نے اس بنگلے کو تو بوسیدہ کردیا ہے لیکن لکڑی ابھی بھی اپنی اصل ساخت کی حالت میں ہے۔



جب برطانیہ نے پنجاب میں آب پاشی کے نظام کو قائم کیا اور (زمین کا نوآبادیاتی نظام) کو 1912 میں متعارف کرایا تو اس خطے میں پہلی لِیزز میں سے ایک جنرل دینییس ہینری 1915 ون کو دیا گیا ۔  اُن دنوں  ہیزل اپنے والدین کے ساتھ ۔
رہنے کے لئے آئی تھی . 
لیز میں جو گاوں آتے تھے وہ درج ذیل ہیں۔یہ لیز کا معاملہ پاکستان ملٹری کوٹ کے زیرِسایہ تکمیل ہوتا ہے اب،جب کہ تب یہ معاملہ بریٹش کورٹ کے زیرِ سایہ پایہ تکمیل ہوا تھا۔
کے گائوں لیز میں تھے۔اورRB  20/، 21/1RB ، 22/1RB ، 23/1RB ، 13A/1R ، 14A/1R ، 
لیز 1915 سے 1935 تک تھا. 20 سال کی لیز کہ بعد میں  اور 10 سال 1945 تک بڑھایا گیا ۔ تاہم ، میجردینییس ہیزی ونسن   مر گیا 1938 مین ان کی بیٹی کے ہیزل، اس کے شوہر کرنل  جان ایف ایل ٹیلر نے لیز کو منظم کیا ۔ یہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرم A. F. فرگوسن Co 
کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ شوہر اور بیوی نے تحصیل رینالہ اسٹیٹ لمیٹڈ میں حصص(شئیرز) منعقد کئے۔
ہیزل (مسز ٹیلر) نے آپنی شادی کے شروعات دن سے ہی محنت ولگن سے کام کیا ۔ہیزل ایک محنتی و دلیر خاتون تھی ،جو اس جنگل بیابان میں آپنے شوہر کے ہمراہ رہی۔
مقامی سیاسی حالات کی اچیت ، جوڑے نے کھیتوں کو تیار کیا ، اور سڑکوں کی تعمیر ، تحصیل رینالہ ریلوے اسٹیشن ،  پولیس اسٹیشن ، اور گھوڑوں ، paddock اور ایک ماڈل گاؤں کے لئے میزیں کی سہولت فراہم کی. ان کی کارکردگی سے متاثر ہونے والے ، نوآبادیاتی ریاست نے اس وعدہ کے ساتھ دوسرے دس سال تک لیز میں توسیع کی کہ ٹیلر کا دس سال کی مدت کے اختتام پر فارم خریدنے کے قابل ہو جائے گا.  لیکن چیزیں جلد ہی تبدیل ہو گئی ہیں ۔ یہ فارم 1948 میں موسلادھار بارش کی نظر ہوگیا۔ جب 4,500 سے باہر 7,723 ایکڑرقبہ زیرآب ہوگیا۔. لیکن یہ صرف ٹیلر  کے لئے مسائل کا آغاز تھا ، خاص طور پر 1955 میں لیز ختم ہونے کے بعد ، جب علاقے میں دیگر اسٹیٹ ہولڈرز نے ملکیت کو چیلنج کیا. تاہم ملتان کے نائب کمشنر ، سردار عطاء محمد لغاری نے ٹیلر کے حق میں فیصلہ کیا اور انہیں ایک اور 10 سال کے لیے لیز کی توسیع کی پیش کش کی ۔
آخر میں, لیز  1969 سے 1979 تک بڑھا دیا گیا تھا1968 میں کرنل جون ٹیلر کی موت واقع ہوگئی۔کرنل جون ٹیلر کی موت ہیزل کے لئے ایک بہت بڑا صدمہ ثابت ہوئی ،وہ اس صدمے سے باہر نہیں نکل رہی تھی ،اُس کا دل اس بات کو تسلیم ہی نہیں کررہا تھا کہ اُس سے محبت کرنے والا شوہر اُسے اکیلاچھوڑ کر اس دنیا سے کوچ کرگیا ہے۔کرنل جون ٹیلر کی موت کے بعد ہیزل کے لئے مزید مسائل کھڑے ہوگئے ،سب سے بڑا مسلئہ لیئز پر لی گئی زمین ہاتھ سے جارہی تھی کیونکہ لیز کی مدت تو کب سے ختم ہوگئی تھی لیکن اس مدت میں پہلے سے ہی مزید توسیع ہوچُکی تھی۔ہیزل کے لئےاب قدم قدم پر مشکلات تھی ،اور اِن مشکلات کو اُسے اکیلے ہی سامنہ کرنا تھا۔چناچہ ہیزل نے اس مدت میں مزید توسیع کے لئے ہائی کورٹ میں اپیل کی۔ کرنل  جون ٹیلر کی موت کہ بعد ایک سال کی توسیع کردی گئی۔
. اس توسیع کے بعد مسز ٹیلر سے دباؤ کم نہیں کیا 1971 ، صدر ذوالفقار علی بھٹو نے مارشل لاء ریگولیشن 115 کے تحت زمین کی ضبطی کو حکم دیا. لیکن اس صورت میں منتقل کر دیا گیا تھا کہ وفاقی زمین کمیشن اس کے فیصلے دی ہے کہ ریگولیشن 115 اس زمین پر لاگو نہیں کیا.  اس کے نتیجے میں ، مسز ٹیلر نے توسیع کی ، لیکن ایک غیر اختصاصی مدت کے لئے.  اس کے بعد ، مسز ٹیلر ایک مسلسل قانونی اور حکومت کے ساتھ اعصاب کی جنگ میں الجھ گئی تھی۔.  1973 میں ، اسی وفاقی زمین کمیشن نے اس کے پہلے آرڈر کو دوبارہ غور اور لیز کو منسوخ کر دیا.  لیکن اس نے ایک بار پھر 1974میں اس کے فیصلے کو تبدیل کر دیا. آخر میں مسز ٹیلر کے خلاف اس کے فیصلے کو نظر ثانی 
کے بعد 1979 تک لیز دی۔مسز ٹیلر نے قانونی نظام کے لئے سہارا لیا اور 1989 تک یہ کیس چلتا رہا۔
مسز ٹیلرنے قانونی نظام کے لئے سہارا لیا اور 1989 تک  قیام کے حکم دیا گیا تھا.  وہ مارشل لاء ریگولیشن کی درخواست مقابلہ کرنے کے لئے جاری رہے جبکہ 115 یہ مارشل قانون اٹھایا گیا تھا کے طور پر اب اس پر لاگو نہیں کیا گیا تھا. لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس بات کا حوالہ دیا ہے کہ وہ اس ملک کا حکم دے رہے ہیں کہ وہ حکومت کو صوبائی حکومت کو ہتھیار ڈالنے کی ہدایت کرے ۔  یہ 1991 میں ایک ابتدائی صبح تھی جب چند افراد ، جس میں ایک وکیل ، ایک دکان دار ، ایک ڈرائیور اور سول اور فوجی ریاست عہدایداروں کی طرف سے ایک مزدور کی قیادت مسز ٹیلر کے فارم ہاؤس میں مجبور ہوا.  اگرچہ 80 سالہ عورت سے کوئی مزاحمت نہیں تھی ، سوائے ایک
اس کے گھر چھوڑنے سے انکار ، 
پر 80 سالہ ہیزل جو مسز ٹیلر کے نام سے جانی جاتی تھی ،کو گھر خالی کرنے کو کہا ،جس پر مسزٹیلر نہ مزاحمت کی اور اُسے کافی چوٹ آئی جس کے بعد اُسے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا ۔یہ ساری تفصیلات بیگم عابدہ سے معلوم ہوئی جو مسز ٹیلر کی دوست تھی۔
مسز ٹیلر سےمدت پوری ہونے کے بعد لیز واپس لے لی گئی اور اُسے اس گھر چھوڑنے کوبھی مجبورکیا گیا۔لیکن اس گھر سے دلی وابستگی کے باعث مسزٹیلر نے یہ گھر چھوڑنے سے انکارکردیا۔شائید حکومت عہدےداربھی یہ سوچ کر خاموش ہوگئے کہ یہ بُڑھیا کب تک اس گھر میں قابض رہے گی۔
مسز ٹیلر اپنے ملک زمبابوے کے شہر (رہودیسا) کی رہائشی تھی ،اور اُسکا بیٹا (جان ونرس) اپنی ماں (ہیزل) کو لینے بھی آیا کہ اپنے وطن واپس چلو،لیکن ہیزل(مسز ٹیلر) نے جانے سے انکار کردیا۔
ہیزل مسز ٹیلراپنے بیٹے (جان ونرس) کے ساتھ آپنے وطن واپس جا کر اپنی باقی ماندہ زندگی اچھے طریقے سے گزار سکتی تھی ،لیکن اُس نے پاکستان کے شہر اوکاڑا کی تحصیل (رینالہ خورد) میں مرنے کو ترجیح کیوں دئی؟


  تحصیل رینالہ !میں ماں اور بیٹے کے لئے گھر تھا ؟  لیکن کیا وہ گھر کی جگہ پر غور کر سکتے ہیں جب کہ یہ ان کا وطن نہیں تھا ؟ مسز ٹیلر کی زندگی آپ کو گھر نہیں کہہ سکتے ہیں ۔اس کے بارے میں ایک راز کھولتا ہے. یہ کہ جہاں آپ پیدا ہوئے ہیں یا آپ کے آباؤ اجداد رہتے ہیں ، یا جہاں آپ رہتے ہیں اور آپ کے جذبات کی سرمایہ کاری کی جگہ ہے ؟  جو آپ کے وطن نہیں ہے ، لیکن آپ کے طور پر اچھا تھا ؟  کیا ہم اپنی ناکامی کا اقرار کر سکتے ہیں کہ وہ وطن ، ریاست اور حب الوطنی  سے باہر گھر کے بارے میں سوچیں ؟


مسز ٹیلر کے شوریک ،کو دیکھ کہ یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہیزل ایک شوقین مزاج اور اپنی چیزوں سے پیار کرنے والی خاتون تھی ۔ورنہ لوگ اپنے پُرانے جوتوں کو سبنھال کہ نہیں رکھتے۔اس میں اب کافی جوتے غائب ہوچُکے ہیں۔نیچے نظر آنے والی تصویرمیں باخوبی دیکھا جاسکتا ہے کہ عدنان شفیق اس شوریک کے پاس کھڑے ہوکر اس بات کو بَاوَر کررہے ہیں کہ لوگوں نے مسز ٹیلر کے پُرانے جوتوں کو بھی نہیں چھوڑا۔یہ پُرانی حویلی جدید ومنظم طریقے سے تعمیر کروائی گئی تھی ،کمرے میں لکڑی کی بنی ہوئی الماریوں کو دیکھ کہ یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنی مہارت اور خوبصورتی سے اس بنگلے کو آراستہ کیا گیا ہوگا جو اب ایک بُھوت بنگلہ کا منظر پیش کررہا ہے۔میں اس بات کہنے سے گریض نہیں کروں گا کہ کمزور دل کے افراد اکیلے اس بنگلے میں سیاحت کے لئے نہیں آسکتے۔

یہ بنگلہ اندر سے نہایت ہی سنان اور کسی خوفناک جگہ کی منظر کشی کرتا ہے،ایک دفعہ تو اندر داخل ہوکر کسی اجنبی خوف کا احساس ہوتا ہے۔جیسے ہالی وڈ کی ہورر موویز میں کسی خوفناک عمارت کی منظر کشی کی جاتی ہے!یہ بنگلہ بھی اُسی طرز کی طرح محسوس ہوتا ہے کیونکہ کہ کافی سالوں سے بند رہنے کہ وجہ 
سے شکستہ وذبوحالی کاشکار ہے۔
کچھ عرصہ پہلے لوگ یہاں داخل ہونے سے ڈرتے ہیں کیونکہ ایک تو یہ بنگلہ اب بُھوت بنگلہ کا منظر پیش کرتا ہے اور دوسرا اس بنگلہ میں کثیر تعداد میں  بھڑ(پُونڈ،ڈیمو) کا بسیرا تھا۔اب ان بھڑ کا خاتمہ کردیا گیا ہے لیکن اُن کے گھر(کھکروں) کو دیکھ کے بندہ حیرت زدہ ہوجاتا ہے کہ اتنی زیادہ مقدار میں آج تک کسی بھی جگہ پر اتنی تعداد میں کبھی بھی کسی نے بھڑ (پُونڈ،ڈیمو) نہیں دیکھے ہونگے 

 !بنگلے کی پچھلی جانب پرآمدہ 
جسکا فرش لکڑی سے بنا ہوا ہے ۔اور یہ اس طرز پر بنایا گیا ہے کہ باہر کی ہوا اس برآمدے کے رستے کمروں میں داخل ہوکر کمروں کو حوا دار بنایا جائے،پُرانے زمانے کے بنگلے کو جدید طریقے سے تعمیر کیا گیا تھا۔تصویر میں نظر آنے والے ڈیپ فریزر کی موجودگی صرف اس بات کو ظاہر کر رہی ہی کہ یہ بوسیدہ ہوچکا ہے اور اب قابل استعمال نہیں ہے ۔ورنہ یہ اس برآمدے میں موجود نہ ہوتا۔
جہاں دیگر سامان چوری ہوا ہے وہاں شائید یہ پیانو بھی! یہ پھر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ اب سرکاری تحویل میں ہو،کیونکہ مسز ہیزل ٹیلر کا بیٹا جون ،اپنی ماں کا سامان واپس نہیں لے کے گیا تھا۔اور محبت کہ یہ پہلو صرف ہم مسلمان پاکستانی لوگوں میں پائے جاتے ہیں جو آپنے پیاروں کے بچھڑنے کے بعد اُن کا سامان محبت بھرے انداز میں سمبنھال کے رکتھے ہیں۔
 مسز ہیزل ٹیلر کا پُرانہ بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن !جو نیچے فرش پر بکھرے سامان کی طرح پڑا کہ رہا ہہے کہ جناب !جہاں آپ لوگوں نے دیگر سامان چوری کر لیا ہے وہاں مجھے بھی آپنے ساتھ لے جاتے ۔مجھے کیوں سردی میں اس گندے اور ٹھنڈے فرش پر گلنے اور سڑنے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔افسوس کہ سوائے صوفہ سیٹ پر کُشن صیح حالت ؛میں نظر آرہے ہیں ۔باقی ہر چیز زِیر زَبر ہے۔چورں نے تلاشی کی غرض سے اس بنگے کی ہر چیز کو اُلٹ پُلٹ کردیا ہے کہ شائید کہیں سے کوئی خزانہ ہاتھ آجائے۔





HayataAbad Peshawar

 حیات آباد پشاور یہ خوبصورت نظارہ کارخانوں روڈ جسے جمرود روڈ بھی کہتے ہیں! کا نظارہ ہے یہ انڈسٹریل اسٹیٹس  ہے ۔یہاں صرف انڈسٹریل علاقہ ہیں،ی...