Monday 16 September 2019

Naulakhi Kothi satghara








نولاکھی کوٹھی
 ایک تاریخی بنگلہ ہے،جو اب ایک ویران اور کھنڈر کا منظر پیس کررہا ہے۔
اس بنگلہ کی داستان ایک ہی شخص کے گرد گردش کرتی ہے جوپاکستان بننے سے پہلے ضلع منٹگمری کا کمشنر تھا اور اس علاقہ میں تعینات تھا۔اس سے پہے اسکا باپ بھی ڈپٹی کمشنر تھا اور اسکا دادا بھی کمشنر تھا۔
اس محب وطن انگریز کا نام ولیم تھا۔ولیم کی اس نولکھی کوٹھی اور اوکاڑا کی سرزمین سے عجب داستان ہے ،جو محب وطن پر منبی ہے۔ولیم کے آباواجداد انگلستان سے آئے تھے ،اور ولیم کا بچپن اسی خطے میں گزرا۔اوکاڑا شہر کے ساتھ دلی وابستگی کی بنا پر ولیم نے اپنے بیوی بچوں تک کی قربانی دے دی اور اپنا وطن نہیں چھوڑا۔
ولیم کے دادا نے جب یہ حویلی تعمیر کروائی تھی تب اس پر نولاکھ روپے لاگت آئی تھی ،اس وجہ سے اسے نولکھی کوٹھی کہا جاتا ہے۔یہ کوٹھی اُس زمانہ کا ایک شہکارتھا۔
نہایت ہی عمدہ اور ایک شاندار بنگلہ تھا۔ لیکن افسوس کے ولیم کے آخری آیام میں ہی یہ بنگلہ عدم توجہی کی وجہ سے بھوت بنگلہ اور کھنڈر کا منظر پیش کررہا تھا۔

نہری کوٹھی رینالہ کے ساتھ بنی سرکاری ڈسپنسری کا ڈسپنرڈاکٹر عزیز احمد سے تفصیلات پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ڈسپنسری بنانے کا مقصد انگریز لوگوں کی فیملی کے لئے طبی سہولیات فراہم کرناتھا۔ 
عزیز احمد سے جب ملاقات ہوی تو وہ ڈسپنسری سے ریئٹائرڈ ہوچُکے تھے تب اُنکی عمر 65 سال تھی۔


عزیز احمد کے مطابق جب ولیم سے کسی نے استفسار کیا کہ بابا جی آپ برطانیہ کیوں نہیں گئے؟
تو ولیم نے کہا کہ مجھے اس قسم کے سوالات سے تکلیف ہوتی ہے! میں یہاں پاکستان میں پیدا ہوا ہوں اور میرے آباواجداد بھی یہی کے رہنے والے تھے۔لہذا میں اپنے وطن کو چھوڑ کر نہیں جاوئنگا۔
ولیم نے ایج سن کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسسسٹنٹ کمشنر بننے کے لئے امتحان پاس کرکے ہندوستان می اپنی زندگی کے نئے راستے پر گامزن ہونے لگا تھا۔ولیم ہندوستان میں زندگی گزارنے کو زیادہ ترجیح دیتا تھا۔کیونکہ اُس نے سوچا کہ دیسی لوگوں پر حکومت کرنے کا آپنا مزہ ہے،اُدھر انگلینڈ میں تو کوئی تمیز ہی نہیں ،سب کام اپنے ہاتھ سے کرنے پڑتے ہیں ۔مگر جیسے ہی ہندوستان کی ہوا لگتی ہے بندہ ایک دم نواب ہوجاتا ہے۔ زندگی کا لطف تو بس ہندوستان ہی میں ہے۔
اُس نے سوچا کہ اب کبھی انگلستان کا منہ نہیں دیکھوں گا۔دو سال بعد اپنی بیوی کیتھی کو بھی بلا لوں گا اور پھر ساری عمر مزے سے کمشنری کریں گے۔
ولیم کا دادا (ہالرائیڈ) کے بعد اُس کا باپ ڈپٹی کمشنر بنا تھا اور آج ولیم بطورِ اسسٹنٹ کمشنر ،لاہور سے اپنی پوسٹنگ کے آرڈر لینے جارہا تھے۔جس کے لئے ابھی ایک سال بطور ٹرینی ادھر اُدھر کی نوکری کرنی تھی۔لیکن یہ ایسی شرط نہیں تھی ،جسے پورا نہ کیا جاسکتا۔یہ ولیم کے لئے سرشار کردینے والا خوش کن منظر تھا ۔آٹھ سال بعد اُسی جگہ وہ حکومت کرنے جارہا تھا۔جہاں اُس نے اپنا بچپن گزارا تھا۔
ولیم کے دادا کو مقامی لوگوں نے قتل کیا تھا۔اس کے بعد اُسے گوگیرہ چھوڑنا پڑا۔جبکہ گوگیرہ ولیم کے پردادا کے نام پر شہر تھا۔
پھر گورنمنٹ نے اپنا ضلعی دفتر گوگیرہ سے اُٹھا کر منٹگمری منتقل کر دیا۔پھر اس کے تین سال بعد ولیم کا باپ جانسن کو منٹگمری کا ڈپٹی کمشنر بنا دیا تو وہ ولیم کو اپنے ساتھ منٹگمری لے آیا۔اور یہاں چار سال تک کا عرصہ گزارا۔

ولیم کے ساتھ عزیز احمد کی کافی دوستی تھی ۔اکثر ایک دوسرے کے ساتھ محَو گفتگو رہتےتھے۔
ولیم جب نولکھی کوٹھی سے نہری کوٹھی میں شفٹ ہوا توآپنا پیشتر سامان وہیں چھوڑ آیا۔نہری کوٹھی میں آپنے ساتھ صرف چارپائی اور کچھ ضروری سامان ساتھ لایا تھا۔
ولیم کی بیوی کا نام (کیتھی ) تھا اور وہ جب برطانیہ گئی تو آپنے ساتھ بچے بھی لے گی۔اور اُس کے جانے کے بعد ولیم کو اُنکی کوئی خبر نہیں کہ بچے اور بچوں کی ماں شائید زندہ بھی ہے کہ نہیں۔لیکن ولیم کبھی بھی دوبارہ پلٹ کر برطانیہ نہیں گیا۔ولیم کا اوکاڑا کی سرزمین کو چھوڑنے کو دل نہیں کیا۔
ولیم کے بیوی (کیتھی نے ولیم کو بہت سمجھایا کہ ہم اپنے وطن انگلستان واپس چلتے ہیں۔لیکن ولیم کہتا کہ میرا یہی وطن ہے ۔یہاں کی مٹی سے مجھے پیار ہے۔میں اس سرزمین کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاوں گا۔کیتھی سمجھدار تھی وہ جانتی تھی کہ ایک دن یہ نولکھی کوٹھی اور یہ گھوڑوں کا اصطبل جو اس کوٹھی کے پچھواڑے میں ہے وہ تمھارے پاس نہیں رہے گا۔
ولیم نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کے کہا کہ شائید نہ رہے،مگر میں برطانیہ جانے کے لئے تیار نہیں ہوں۔کیتھی نہ کہا کہ ولیم اگر تم اپنی حماقت پر قائم رہے تو میں اپنے بچوں کو اس سرزمین سے نکال کے لے جاوں گی مجھے اس سر زمین میں نہیں رہنا جو ہماری ہے ہی نہیں اور جہاں سے ایک دن ہمیں نکال دیا جائے گا۔مگر ولیم یہاں اوکاڑا کی سرزمین سے جانے کو تیار نہیں تھا۔
یہ سارے حالات واقعات پاکستان و ہندوستان کی تقسیم کے وقت کے ہیں،شائید کیتھی جانتی تھی کہ برصغیر کی تقسیم کے  بعد انگریزوں کو یہ سرزمین چھوڑنا پڑے گی اس لئے اُس نے ٹھیک وقت پر فیصلہ لیا جب کہ ولیم اِسی سرزمین پر پیدا ہوا ہے اور اِسی سرزمین پر پڑھا لکھا اور بڑھا ہوا تھا اس لئے اُسے اس سرزمین سے ہر چیز سے بڑھ کر محبت تھی ۔
ولیم کی اس سرزمین سے محبت ایک ایسے جواری کی تھی جو اس وطن کی محبت میں سب کچھ ہار جاتا ہے یہاں تک کہ اپنے بیوی بچے بھی۔
کیتھی سمجھ چُکی تھی کہ اب ولیم نے واپس برطانیہ نہیں جانا ،اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ ولیم برطانیہ کے مقابلے میں ہندوستان کے علاقے اوکاڑا کو زیادہ پسند کرتا ہے،تقسیم ہند سے پہلے یہ سارا علاقہ ہندوستان شہر ہی تھا۔کیتھی یہ بھی جانتی تھی کہ باقی برطانیوں کی طرح یہاں سے نکلنا ہی پڑے گا۔کیونکہ وہ اکیلا تو کسی صورت یہاں رُک نہیں سکتا۔
کیتھی نہ ہر طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن ولیم نہ کہا کہ میں اس اصطبل کے گھوڑوں پر سیر کرنا زیادہ پسند کرتا ہوں بانسبت یہ کہ میں برطانیہ کے کسی گورے سے ہم کلام ہوں۔
یہ اصطبل جس کو میرے باپ نے میرے لئے ،اس نولکھی کوٹھی کے پچھواڑے میں بنایا ہے۔
ولیم نے اس نولکھی کوٹھی اور اس سرزمین کے لئے اپنی ہر چیز قربان کر دی جو کہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔
بلاآخر پاکستان معرض وجود میں آگیا ،ولیم نہ ایک امید کے تحت پاکستانی گورنمنٹ سول سروس میں اُس کی خدمات قبول کرلے گی مگر اُس نے سوچا کہ درخواست دینے میں کیا حرج ہے۔اگر گورنمنٹ اسکی درخواست قبول کرکے اُسے ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر برقرار رکھتے ہوئے وسطی پنجاب میں نوکری دے دیتی ہے تو ہر چیز ٹھیک ہوسکتی ہے۔وہ کیتھی اور بچوں کو واپس بلالے گا۔پھردونوں مل کر بیٹے اور بیٹی کے ساتھ نئے سرے سے زندگی کاآغاز کریں گے۔
درخواست دینے کے بعد جب گورنمنٹ پاکستان کی طرف سے ولیم کے خط آیا جس میں اس کا عہدہ بحال کرنے سے انکار کیا گیا تھا۔اور یہ بات انیس سو پچھتر 1975 دسمبر کے آغاز کی ہے۔

لہذا ولیم نے سوچ لیا کہ اُسے باقی ماندہ زندگی اوکاڑہ نولکھی کوٹھی میں ہی گزارنی ہے۔
کبھی کبھار ولیم ٹہلنے کے لئے کمپنی باغ چلا جاتا جو اُسی کی تجویز پر بنا تھا۔اس باغ میں آکر پچھلے دنوں کی تاد تازہ کرتا۔
کافی عرصہ پہلے ہی کوٹھی سے ملحقہ زمین پر سے ولیم کا قبضہ اُٹھ چُکا تھا ۔صرف یہ کوٹھی اور اصطبل ہی رہ گیا تھا ۔
یہ ملحقہ زمین ریٹائرڈ فوجی افسروں کے نام الاٹ ہو چُکی تھی۔
ولیم کے آخری آیام میں یہ کوٹھی ہجرہ شاہ مقیم کی سیاسی شخصیت شمس الحق گیلانی  کو آلاٹ کردی گئی ،اور ولیم کو اسے خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔
ولیم جو پہلے سے ہی اپنے بیوی بچوں کی غم میں اُداس وپریشان رہتا تھا اب ایک اور نئی مصیبت اسکی منتظر تھی۔
کیونکہ ولیم کو اس گھر سے نکالنے کے لئے مجسٹریٹ اور ایک پولیس وین بھی آئی تھی جس میں پولیس اہلکار سوار تھے۔
ولیم نے مجسٹریٹ سے کچھ مہلت مانگی کہ اُسے کچھ ٹائم دیا جائے اس نولکھی کوٹھی کو خالی کرنے کے لئے! جبکہ کوٹھی میں اب سوائے ولیم کی یادوں کے اور کچھ باقی نہ بچا تھا جو وہ اس کوٹھی کو خالی کرتا۔ مجسٹریٹ نے ولیم کو صرف 2 دن کی مہلت دی کی اس بنگلے کو خالی کر دے۔
ولیم پر یہ سرکاری آڈر ایک بجلی کے طرح گرے تھے،کیونکہ اس کوٹھی کے سوا اسکے پاس کوئی اور ٹھکانہ نہ تھا جہاں ولیم جاتا۔اور اس کوٹھی سے بے پناہ دلی وابستگی کے تو ولیم اپنے وطن انگلینڈ نہیں گیا تھا۔
جب مجسٹریٹ جانے لگا! تو ولیم نے مجسٹریٹ کے طرف دیکھ کر کہا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں اتنا بوڑھا اور کمزور ہوں کہ اس لکڑی کے بغیر چل پھر نہیں سکتا اور اپنے کاندھے پر چادر پھیلانے کے لئے بھی میرے ہاتھ کانپ اٹھتے ہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ میں اس ملک میں پیدا ہوا ہوں میرے باپ دادا اس ملک کے تھے ،اور اس وقت میں اتنا اجنبی ہوگیا ہوں اس ملک کے لئے کہ میرے ہمایت کے لئے ایک چیونٹی تک نہیں آئے گی ۔پھر آپ یہ پولیس کس لئے لائے تھے؟
مجسٹریٹ ولیم کے اس چبھتے ہوئے سوال پر لرز کے رہ گیا ۔بڈھے نے کتنی کڑواہٹ کے ساتھ اُس کی توہین کی تھی اُسکی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا جواب دے۔تھوڑا سا آگے بڑھنے کے بعد مجسٹریٹ نے کہا ولیم آپ بہت ہی معقول آدمی ہو میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں !مجھے معاف کر دینا میں آپ کے اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔

ولیم کے آخری دن بہت بے بسی اور بدحالی میں گزرے ،ولیم کئی کئی مہینے کپڑے نہیں بدلتا تھا۔اوکاڑا شہر ،اور رینالہ شہر
 اور اسی طرح دوسرے چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں گھومتا پھرتا رہتا ۔
اگر کسی نے روٹی دے دی تو کھا لی ۔یعنی ولیم نے آخری دن اسی طرح فقیری میں گزارے ۔شائید وہ اس غم میں مبتلا تھا کہ  جس آس اور ڈھارس پر اُس نے اس سرزمین کو نہیں چھوڑا تھا ،وہ بھی وجہ اب باقی نہیں رہی تھی
نولکھی کوٹھی میں ولیم نے اپنی زندگی کا ایک عرصہ گزارا ،اور آخری آیام ۔1989کی دہائی میں اُسکی موت نہری کوٹھی میں ہوئی تھی،اُسے نولکھی کوٹھی چھوڑ کے یہاں آئے تقریباً تین سال بیت گئےتھے۔ ولیم کی موت کے بعد شواہدین کے مطابق پانچ چَک (گاوں) کے رہنے والے عیسائی کچھ لوگ آئے تھے اور اُسکی میت کو اٹھاکرلئے گے اور وہاں کے گرجا گھر کے قریب اُسے دفنا دیا








11-Nov-2018


11-Nov-2018

عدنان شفیق بلوچ جن کا سلسلہ نصب (سپہ سلار شیر شاہ سوری میر چاکر اعظم رند بلوچ سے ملتا ہے جنہوں نے اوکاڑا کی سرزمین پر شہنشاہ ہمایوں کی فوج  کو شکست دے کر جامِ شھادت نوش کیا تھا ،میر چاکر اعظم رند بلوچ  نے پنجاب دریائے راوی کے زمینوں پر آکر بسیرا کرکے شیر شاہ سوری کی فوج میں ملازم کی اور اوکاڑا اور گردونواں کے لشکر کی سُپرداری اور سپہ سلار مقرر ہوئے۔جن کا مقبرہ ستگھرہ میں واقع ہے)۔ عدنان شفیق ایک محب وطن پاکستانی ہیں آپ کے دل میں پاکستان کے لئے قربانی وایثار کا جذبہ کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے۔آپ سیروتفریح کے شوقین ہیں اور پاکستان کی کافی ساری جگہیں دیکھیں ہیں  ۔ عدنان شفیق بلوچ کی شخصیت کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ آپ ایک مخلص اور پیار کرنے والے انسان ہیں۔

05-Nov-2017
نولکھی کوٹھی کی تلاش کافی عرصے سے تھی مجھے لیکن میں اس کی لوکیشن سے ناواقف تھا۔تقریباً دو سال اس کی تلاش میں رہا،پھر جب پہلی بار2017-11-05 کو اس کوٹھی کی طرف جانے کا اردہ کیا تب آصف اسلم بھی میرے ساتھ تھا،میں پیار سے آصف اسلم کو (چموسہ) کہتا ہوں ،آصف اسلم ایک اچھا اور شریف النفس انسان ہے۔

11-Nov-2018

22-Dec-2019

11-Nov-2018

22-Dec-2019

5-Nov-2017

11-Nov-2018
22-Dec-2019
22-Dec-2019
22-Dec-2019
22-Dec-2019


The central corridor with the doors on the left leading to the bedrooms; those on the right lead to the state rooms


The portico on the west side of the house

No comments:

Post a Comment

HayataAbad Peshawar

 حیات آباد پشاور یہ خوبصورت نظارہ کارخانوں روڈ جسے جمرود روڈ بھی کہتے ہیں! کا نظارہ ہے یہ انڈسٹریل اسٹیٹس  ہے ۔یہاں صرف انڈسٹریل علاقہ ہیں،ی...