سرسبزوشاداب پہاڑی سلسلہ کے وسعت میں اور انڈس ریور (دریا اٹک ) کے برلب یہ حسین ریلوے سٹیشن قیام پذیر ہے۔
اس ریلوے سٹیشن کا شمار پاکستان کے حسین طرین ریلوے سٹیشنز میں سرِ فہرست ہے۔ بلند وبالا پہاڑ اور سر سبز وشاداب پہاڑی سلسلہ اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔
چونکہ یہ علاقہ ممنوعہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہر خاص وعام کو غروج وخروج کی اجازت نہیں،اسی لئے اٹک کے رہنے والے بیشتر حضرات اس علاقہ سے ناواقف ہیں۔اس حسین جگہ کی کھوج میرے عزیز دوست عدنان شفیق کی وساطت سے ہوئی،عدنان شفیق کے ہمراہ ہم اس خوبصورت مقام کی طرف روانہ ہوئے،عنان شفیق اپنے نام کی طرح خود بھی مہربان اور شفیق انسان ہیں،،رستے میں سیکورٹی اہلکاروں سے گفت وشنید کبعد ہم بڑی مشکل سے اس راہ پر گامزن ہوئے اس حسین رستے پر سب سے پہلے اٹک کا شاندراد قلعہ دیکھنے والے حضرات کو بہت متاثر کرتا ہے کیونکہ عین دریا کے کنارے اور پہاڑوں کے عین وسط یہ قلعہ قیام پذیر ہے،یہ قلعہ عہد اکبر شہنشاہ میں تعمیر ہوا، قلعہ روہتاس (جہلم) سے اس قلعہ کی بہت زیادہ مماثلت ہے،جبکہ قلعہ روہتاس عمارت اور رقبہ کے لحاظ سے وسیع وعریص ہے۔ چند منٹس کی مسافت کے بعد ہم اٹک خرد سٹیشن پہنچے ،اور وہاں پہنچنے کے بعد یقین نہیں آرہا تھا کہ اتنی حسین جگہ کے بارے میں ہم نے آج تک نہ کسی سے تذکرہ سناتھا اور نہ ہی اس جگہ کے بارے اگاہی تھی،عدنان شفیق ایسی حسین جگہوں کے
بارے میں بخوبی جانتے ہیں کیونکہ وہ بسااوقات ایسی حسین جگہوں کی کھوج میں رہتے ہیں۔
اٹک ایک خوبصورت اور تاریخ شہر ہے،مغل شہنشاہ اکبر کہ عہد میں بھی یہ شہر آباد تھا اور اس صنعتی ترق کے لحاظ سے بھی کافی مقبول ہے۔
اِنڈس ریور(دریائے اٹک) اور دریائے کابل اس مقام پر یکجا ہوتے ہیں،یہ حسین نظارہ دیکھنے والوں کو محظوظ کرتا ہے۔
River Indus and River Kabul meeting point
پس منظر میں نظر آنے والی عمارت اٹک قلعہ ہے،یہ عہدِ شہنشاہ اکبر کے دورِحکومت میں قیام پذیر ہوا۔
Background
Attock is located in a historically significant region. Gandhara was an ancient kingdom extending to the Swat valley and the Potohar plateau regions of Pakistan as well as the Jalalabad district of northeastern Afghanistan. Situated astride the middle Indus River, the region had Takshashila and Peshawar as its chief cities. The place is of both political and commercial importance, as the Indus is here crossed by the military and trade route through the Khyber Pass into Afghanistan. Alexander the Great, Timur and Nader Shah crossed the Indus at or about this spot in their respective invasions of India.
The Attock Fort was completed in 1583 under the supervision of Khawaja Shamsuddin Khawafi, a minister of Emperor Akbar.[6] Nader Shah crossed through Attock when he defeated the Mughals at the Battle of Karnal and thus ended Mughal power in Northern India. The Battle of Attock took place at Attock Khurd on 28 April 1758 between the Durrani Empire Maratha Kingdom. The Marathas under Raghunathrao Ballal Peshwa and Tukojirao Holkar Bahadur were victorious in the battle and Attock was captured.[7] But this conquest was short-lived as Ahmad Shah Durrani came in person to recapture Attock and checked the Maratha advance permanently after destroying their forces at Panipat. After the decline of the Durrani Empire, the Sikhs invaded and occupied Attock District. The Sikh Kingdom (1799–1849) under Ranjit Singh (1780–1839) captured the fortress of Attock in 1813 from the Durrani Nawab.
In 1849, Attock Khurd (Old Attock) was conquered by the British East India Company who created Campbellpur District. Following the Indian Rebellion in 1857, the region's strategic value was appreciated by the British, who established the Campbellpur Cantonment in 1857-58.[2] Campbellpore District was organised in 1904,[2] by the division of Talagang Tehsil in the Jhelum District with the Pindigheb, Fateh Jang and Attock tehsils from Rawalpindi District.
،پس منظر میں نظر آنے والی عمارت مقبرہ اٹک ہےاس مقبرہ کے بارے میں لوگوں کی رائے ہے کہ یہ ایک طوائف کا مقبرہ ہے جو عہد اکبر میں قائم ہوا تھا۔
Attock Tomb!
Real name of this tomb is Randi ka Maqbara(The Whore's Tomb),the tomb of unknown dancer belongs to Akbar's period..
Located at GT road in district Attock.
This Photo was taken in 1939-40
The tomb is located in the centre of Grand Trunk Road, leading to Peshawar; the Attock bridge being hardly three kilometres away. There is no inscription on the tomb, indicating whose resting place is this. According to the local legend it is known as”Kanjri Ka Maqbara” (prostitute’s tomb).
ڈیھری لگال ڈیم
اٹک میں ویسے اور بھی ڈیم ہیں لیکن یہ ڈیم بھی اپنی خوبصورتی کے حوالے سے منفرد اور پُرکشش ہے جو بھی یہاں سیروسیاحت کے لئے تشریف لاتے ہیں وہ دوبارہ پھر اس جگہ کے طلبگار ہوتے ہیں،اس خوبصورت جگہ پر جانے میں خوشقسمتی سے عدنان شفیق میرے ہمراہ تھے کیونکہ اس طرف کی اگاہی صرف عدنان کو ہی تھی،عدنان شفیق یہاں معتدد بار تشریف لا چکے ہیں ،اس ڈیم کی اونجائی تک جانے کے لئے ڈیم سے متصل خطرناک سیڑھیاں موجود ہیں جن پر چڑھنا آسان کام نہیں کیونکہ پانی کے بہاو کی وجہ سے اس جگہ پر اُلی (فنگس) کی تہ جم چُکی ہے جس پر پاوں پھسلنے کے حتمی و یقینی امکانات ہوتے ہیں !میں نے فیصلہ کر لیا کہ کچھ بھی ہو لیکن میں ہرگز اس اونچائی پر نہیں جاونگا لیکن عدنان شفیق نے حکمتِ عملی اپنائی کہ مجھے مجبوراً عدنان شفیق کے تعاقب میں جانا پڑا،عدنان شفیق اپنے کندھوں پر میرے چھوٹے بیٹے کو بٹھا کہ اونچائی کی طرف گامزن ہوگے،ہرچند انکار کے باوجود مجھے بھی اوپر چڑھنا پڑا،اوپر جا کہ آکسیجن کی کمی کا احساس ہوا اور اتنی زیادہ اونچائی پر جا کہ خوف بھی محسوس ہوا،اگر عدنان شفیق ایسا نہ کرتے تو میں ہرگز اوپر چڑھنے والا نہیں تھا،
Dheeri Lagaal Dam 14-10-2020
Attock Khurd Station
Sanjwal Cantt
Haaro River 14-10-2020
14-10-2020
No comments:
Post a Comment