حیات آباد پشاور
یہ خوبصورت نظارہ کارخانوں روڈ جسے جمرود روڈ بھی کہتے ہیں! کا نظارہ ہے یہ انڈسٹریل اسٹیٹس ہے ۔یہاں صرف انڈسٹریل علاقہ ہیں،یہاں کوئی رہائشی آبادی نہیں ہےماسوائۓ لیبر کالونی کے ۔لیبر کالونی ایک معیاری رہائشی کالونی ہے جہاں انڈسٹری میں کام کرنے والے درمیانہ طبقے کے لوگ آباد ہیں،یہ بہت ہے موزں علاقہ ہے رہائش کے لئے۔ اس علاقہ میں آباد گھروں کو دیکھ کر گورنمنٹ کوارٹر جیسے ملڑی فارم کی رہائشی کالونیاں ہیں بالکل ویسے ہی یہ گھر آبادہیں۔ان گھروں کاکرایہ آج کے دور میں بھی تین سے چار سو روپے تک ہے جو ایک حیران کن بات ہے اکیسویں صدی میں ۔ہماری فیکڑی جہاں میں بطور جنرل مینجر جاب کرتا رہا وہ اس لیبر کالونی کے گیٹ کے بالکل قریب ترین تھی۔اس علاقہ میں جتنا وقت گزرا وہ بہت ہی اچھا وقت گزرا۔جب کے پنجاب سے آئے ہوئے ایک ایسے پردیسی کے لئے یہ علاقہ جہاں سات سو کلومیڑ کی مسافت طہ کرکے زبان اور صوبائی سرحد تبدیل ہوجاتی ہے۔زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے شدید جدوجہد میں اس اجنبی شہر میں وقت گزرا۔یہ نیا شہر اس پردیسی کے لئے بہت سی مشکلات بھی لے کرآیا جو اپنے گھر میں سکون سے بھری زندگی اپنے پیارے بیٹے ریان احمد کےساتھ گزاررہا تھا۔پشاور کی سختی نے زندگی کا فلسفہ سمجھا دیا۔
خبیر گیٹ کو بچپن سے ہی دیکھنے کی تمنا تھی اس گیٹ کی تصویر ماجس کی ڈبی پر بنی ہوتی تھی۔بچپن کی اس یادگار تصویر کو حقیقت میں جب دیکھا تو نطارہ کا الگ ہی مزا تھا۔ خیبر ماچس کی فیکٹری بھی گیا اور اس ماچس فیکٹری کو دیکھ کر زمانہ طفل یاد آگیا۔
گل حاجی پلازہ یونیورسٹی روڈ
’قصہ خوانی بازار کے قہوے کے ساتھ ایک تاریخ جڑی ہے۔ برصغیر کی تقسیم یعنی 1947 سے پہلے یہ بازار ایک تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا اور ملک کی مختلف جگہوں سمیت بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک سے تاجر یہاں آرام کرتے تھے۔ یہاں یہ تاجر ایک دوسرے کو قصے سناتے تھے اور ساتھ میں قہوہ پیتے تھے اور اسی وجہ سے اس بازار کا نام بھی قصہ خوانی بازار پڑ گیا۔‘
قبائلی اضلاع میں قہوے کا شوق بھی بہت پرانا ہے اور وہاں پر مہمان نوازی میں قہوہ پلانا عام رواج ہے۔ میں نے خود وہاں پر جا کر کچھ گاؤں میں ایسی روایت بھی دیکھی کہ مہمانوں کو قہوے کے ساتھ کچھ میٹھی چیز یا گڑ پیش کیا جاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment