حسن ابدال، ضلع اٹک،پاکستان کے صوبہ پنجاب کی شمالی سرحد کے قریب واقع ایک تاریخی شہر ہے جوحسن نیکہ نورزئی عرف حسن ابدال 1757ء میں کی نسبت سے بنا؛ احمد شاہ ابدالی نے جب پنجاب پر حملہ کیا تو حسن نیکہ نورزئی عرف حسن ابدال اور ان کے قبیلے نے جی جان سے حسن ابدال کو فتح کرنے کی کوشش کی اور آخر حسن ابدال کو فتح کیا احمد شاہ ابدالی اس فتح سے اتنا خوش کہ اس علاقے کو حسن نیکہ کے حوالے کردیا اور خود آگے ہندوستان پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے ۔[حوالہ درکار] یہ جی ٹی روڈ پر شاہراہ قراقرم کے شروع پر واقع ہے۔ راولپنڈی سے لگ بھگ 40 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع اس قصبے کی موجودہ آبادی 50،000 سے زیادہ ہے۔ حسن ابدال اپنے خوبصورت تاریخی مقامات اور سکھ مذہب کی ایک اہم عبادت گاہ گردوارہ پنجہ صاحب کی وجہ سے مشہور ہے۔ ہر سال دنیا کے مختلف حصوں سے ہزاروں سکھ زاٰئرین بیساکھی کے میلہ پر گردوارہ پنجہ صاحب پر حاضر ہو کر اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔ دوسرے تاریخی مقامات میں مقبرہ لالہ رخ کے نام سے مشہور مغلیہ دور کا ایک مقبرہ اور بابا حسن ابدال کا حجرہ شامل ہیں۔ مقبرہ لالہ رخ کے نام سے مشہور تاریخی مقام چوکور احاطے میں واقع ایک قبر اور مچھلیوں والے تازہ پانی کے ایک چشمے پر مشتمل ہے۔ شہر حسن ابدال ایک پہاڑی کے دامن میں آباد ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس پہاڑی کی سب سے بلند چوٹی پر حسن نیکہ نام کے ایک ولی اللہ کا مقام قیام ہے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق انہی ولی اللہ کا اصلی نام بابا حسن ابدال ہے اور قصبے کا نام بھی انہی کے نام سے ماخوذ ہے [2]
ماضی میں اس حسین سرسبز وشاداب علاقے میں پاکستان فلم انڈسٹری نے کافی فلموں کی عکس بندی بھی کی۔ یہ علاقہ سرسبزوشادابی کے لحاظ سے بہت ہی حسین ہے ۔اس علاقے میں لاہور کے مغلیہ باغ کے طرز پر ایک باغ بھی موجود ہے جسےشہنشاہ جہانگیر نے تعمیر کروایا تھا،۔
یہ قصبہ(جو اب ایک شہر بن چکا ہے) حسن نیکہ عرف ( حسن ابدال ) جو افغان شہنشاہ احمد شاہ ابدالی کے فوج کا ایک سردار حسن گورگ (نورزئی) کے نام سے منسوب ہے مشہور چینی سیاح ھیون تسانگ جس کا اس مقام سے اٹھارویں صدی عیسوی میں گزر ہوا ایلاپاترا نامی ایک مقدس چشمے کا ذکر کرتا ہے جو ٹیکسلا سے 70 لی شمال مغرب میں ،یعنی حسن ابدال کے موجودہ مقام پر واقع تھا [3] - اس قصبے کا ذکر آئن اکبری میں اس حوالے سے آیا ہے کہ شمس الدین نے یہاں اپنے لیے ایک مقبرہ تعمیر کروایا تھا جس میں حکیم ابو فتح دفن ہے۔ کشمیر سے واپسی پر اکبر کے یہاں سے گذرنے کا بھی ذکر ہے [3]۔ ولیٔم فنچ نے اپنے ہندوستان کے سفر کی روداد میں سنہ 1808 اور1821 عیسوی کے حسن ابدال کو ایک خوشگوار قصبہ بیان کیا ہے جس کے قریب سے ایک ندی گذرتی ہے اور جہاں کے شفاف پانی کے چشموں میں تیرتی مچھلیوں کی ناکوں میں سنہری نتھوں کا ذکر ہے۔ پانی اس قدر شفاف تھا کہ چشمے کی تہ میں پڑا سکہ بھی صاف نظر آتا تھا[2]۔ اس جگہ کی تعریف میں اس نے چھوٹی سی پہاڑی کے دامن سے نکلنے والے چشمے کے انتہائی شفاف اور میٹھے پانی کا ذکر کیا ہے[2]۔ مختلف مغل بادشاہوں کے کشمیر کی جانب سفر پر اس جگہ سے ہو کر گذرنے کا ذکر ملتا ہے[4] ۔سکھ مذہب کے بانی گرونانک 1521ء میں حسن ابدال پہنچے۔ ان کی جائے قیام پر بعد میں ان کی یاد میں ایک گوردوارہ تعمیر کیا گیا۔ گوردوارے میں پتھرکی ایک چٹان پر ہاتھ کا ایک نشان کندہ ہے جسے باباگورونانک کی ایک کرامت کا نتیجہ بتایا جاتاہے[4]
تعلیم[ترمیم ماخذ]
شہر
میں کئی سرکاری پرائمری اسکولوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ایک ہائی اسکول کے ہر
لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ایک اعلی ثانوی اسکول کی ہر اور خواتین کے لیے ایک ڈگری
کالج ہے۔ یہاں نجی چلانے سکولوں کی ایک بڑی تعداد سرکاری کی کمی اسکولوں کے لیے
قضاء ہیں۔
شہر
کی حدود کے علاقے میں ایک مشنری بلایا پیش کانوے نٹ سکول واہ جو لڑکیوں کے لیے
ہائی اسکول کی تعلیم کی پیشکش اسکول ہے۔
اوپر
اسکولوں ہے کہ مقامی آبادی کے لیے ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ میں، ایک فوجی
سٹائل لڑکوں رہائشی اسکول جس میں 8th سے 12th گریڈ کو لڑکوں اندراج ہے اور اصل میں انہیں ایک فوجی کیریئر کے لیے تیار
کی بنیاد رکھی ہے۔ ڈائریکٹرز کے ایک بورڈ کی طرف سے کیڈٹ کالج حسن ابدال کا انتظام
کیا جاتا ہے اور پنجاب کی صوبائی حکومت سے منسلک ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران علاقے جہاں کیڈٹ کالج حسن ابدال واقع ہے، ایک برطانوی ہوا پٹیاں اور بھرتی اور تربیت کا مرکز تھا،
اہم معلومات
اٹک · پنڈی گھیپ · جنڈ · حسن ابدال · حضرو · فتح جنگ تحصیلیں:
اٹک · حضرو · حسن ابدال · جنڈ، اٹک · فتح جنگ · پنڈی گھیب · شہر: توت
پنڈسلطانی · جلالیہ · چھب · چھچھ · حاجی شاہ · نانگاوالی · ہدووالی قصبہ جات:
اٹک پل · سلسلہ کوہ کالا چٹا · قلعہ اٹک · گردوارہ پنجہ صاحب · اہم مقامات: دریائے سندھ
No comments:
Post a Comment