Sunday 10 May 2020

Okara Punjab



اوکاڑہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک مشہور شہر ہے جو ضلع اوکاڑہ کا صدر مقام ہے۔ اوکاڑہ کو منی لاہور یعنی چھوٹا لاہور کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ لاہور کے جنوب مغرب میں دریائے راوی سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک زرعی علاقہ ہے جو کپاس کی صنعت میں مشہور ہے۔ یہاں سے سیلہ چاول، آلو اور مکئی نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی برآمد ہوتے ہیں۔ اوکاڑہ سے نزدیک ترین بڑا شہر ساہیوال ہے۔ آبادی کے لحاظ سے اوکاڑہ کا شمار پاکستان کے بڑے اضلاع میں ہوتا ہے۔ اوکاڑہ میں ڈیری فارمز کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں اور یہاں کا پنیر ملک بھر میں مشہور ہے۔ اوکاڑہ کا پوسٹل کوڈ 56300 ہے۔
اوکاڑہ کے مصروف ترین روڈ میں (بے نظیر ایونیو، ایم اے جناح روڈ، ٹھنڈی سڑک،گورنمنٹ کالونی روڈ) شامل ہیں۔ اوکاڑہ کی مشہورترین اور تاریخی مارکیٹس میں (گول چوک مارکیٹ،ریل بازار،انارکلی بازار)سرفہرست ہیں

وجہ تسمیہ[ترمیم]

شہر کا نام اوکاں نامی درخت سے منسوب ہے۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں یہاں اوکاں کا جنگل ہوا کرتا تھا جس میں مسافر ٹھہرا کرتے تھے۔ اوکاڑہ کو اوکاں والا اور اوکاں اڈا بھی کہا جاتا تھا۔

تاریخ



؁ ء 1849میں پنجاب پر برطانوی قبضے کے بعد دو سال پاکپتن ضلعی ہیڈ کوارٹر رہا۔ ؁ 1851ء میں انگریزوں نے ایک نئے ضلع منٹگمری کی بنیاد رکھی جس کا ہیڈ کوارٹر گوگیرہ کو بنایا گیا۔ تب موجودہ ساہیوال، پاکپتن اور اوکاڑہ اسی ضلع کے حصے تھے۔ ؁ 1865ء میں ضلع کا ہیڈ کوارٹر ساہیوال (تب منٹگمری) میں شفٹ کر دیا گیا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک اوکاڑہ ضلع منٹگمری کا ایک چھوٹا سا شہر تھا۔

دی اربن یونٹ کے تحت اوکاڑہ پر تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق نہری نظام متعارف کروائے جانے سے پہلے اوکاڑہ ایک بنجر علاقہ تھا۔ 1913ء میں پہلے لوئر باری دوآب اور اس کے بعد پاکپتن اور دیپالپور کی نہروں نے اس علاقے کو کھیتی باڑی کا مرکز بنا دیا۔

ء 1918میں ریلوے لائن بچھنے سے اوکاڑہ کراچی اور لاہور سے جڑ گیا جبکہ ؁ 1925ء تک اوکاڑہ کو سڑکوں کے ذریعے سبھی بڑے شہروں کیساتھ جوڑا جا چکا تھا۔

؁ ء 1913میں اوکاڑہ کو ٹاؤن کمیٹی اور پھر ؁ 1930ء میں میونسپل کمیٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ میونسپل کمیٹی درجہ ملتے ہی اوکاڑہ کو تحصیل آفس اور پولیس اسٹیشن کی سہولیات بھی میسر ہوگئیں۔

ء؁ 1936 میں جب اوکاڑہ میں برلا گروپ نے ستلج ٹیکسٹائل مل کی بنیاد رکھی تو اوکاڑہ کے لیے معاشی ترقی کے دروازے کھل گئے اور اردگرد کے علاقوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شہر میں آکر آباد ہو گئی۔

؁ ء 1942میں یہاں مارکیٹ کمیٹی بننے کے بعد اوکاڑہ کو زرعی اجناس کی تجارت کے علاوہ سبزی اور فروٹ منڈی، غلہ منڈی، تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال، گورنمنٹ ہائی سکول (بوائز اینڈ گرلز)، ٹیلیفون ایکسچینج، پاور ہاؤس، میونسپل پارک اور پوسٹ آفس کی سہولیات بھی دستیاب ہوگئیں۔

اوکاڑہ کی آبادی کا بڑا حصہ ہندوؤں اور سکھوں پر مشتمل تھا جو تقسیم ہند کے بعد بھارت چلے گئے جن کی جگہ بھارت سے آئے مہاجر مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر آبادکاری کی گئی۔ ؁ 1967ء میں یہاں فوجی چھاؤنی قائم کی گئی۔

؁ ء 1982میں جب اوکاڑہ کو ضلع کا درجہ دیا گیا تب یہ دو تحصیلوں دیپالپور اور اوکاڑہ پر مشتمل تھا۔ ؁ 1988ء میں بابا فرید شوگر مل کے لگ جانے سے ضلع اوکاڑہ کو مزید معاشی تقویت ملی۔ یہ شوگر اب بھی پاکستان کی بڑی شوگر ملوں میں سے ایک ہے

جغرافیائی لحاظ سے اوکاڑہ کے مشرق میں قصور، مغرب کی طرف ساہیوال اور پاکپتن، شمال میں فیصل آباد اور شیخوپورہ سے جبکہ جنوب میں بہاولنگر واقع ہے۔ اس کے مشرق میں دریائے ستلج جبکہ مغرب میں دریائے راوی اور دریائے بیاس (جو اب مکمل طور پر خشک ہوچکا ہے) بہتے ہیں۔ یوں تو دریائے ستلج میں سال کا بیشتر حصہ پانی کی مقدار کافی کم دیکھنے کو ملتی ہے مگر اگست اور ستمبر کے مہینوں میں بارشوں اور بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے کے سبب اکثر طغیانی آجاتی ہے۔
ضلع اوکاڑہ اس وقت تین تحصیلوں پر مشتمل ہے جس میں تحصیل اوکاڑہ، تحصیل دیپالپور اور تحصیل رینالہ خورد شامل ہیں۔ ضلع اوکاڑہ کا رقبہ 4377 مربع کلومیٹر ہے۔ ؁ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق آبادی تقریباً 22،00،000 تھی جو اس وقت اندازہً 32،00،000 تک جاپہنچی ہے۔ یہاں کی تین تحصیلوں میں 5 ایم این اے اور 10 ایم پی اے موجود ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئی حالیہ حلقہ بندی کے تحت ضلع اوکاڑہ کو 140 یونین کونسلوں اور 7 مونسپل کمیٹیوں (اوکاڑہ، دیپالپور، رینالہ خورد، بصیر پور، حویلی لکھا، حجرہ شاہ مقیم اور منڈی احمد آباد) میں تقسیم کیا گیا ہے۔
تعلیمی لحاظ سے ضلع اوکاڑہ میں 12 ڈگری کالج، 5 ہائر سکینڈری سکول، 142 سکینڈری سکول، 151 مڈل سکول، 1257 پرائمری سکول جبکہ ایک یونیورسٹی بھی موجود ہے۔
اس علاقہ میں بسنے والی مشہور ذاتوں میں سید،بلوچ، شیخ، آرائیں، بودلہ، راﺅ، بھٹی، جٹ، کمیانہ،سیال، گجر، کمبوہ، وٹو، جوئیہ، ڈوگر اور کھرل شامل ہیں۔
اہم شخصیات میں مولانا محمد لکھوی کے بیٹے معین الدین لکھوی ہیں جو ممبر قومی اسمبلی رہے۔ انہیں ستارۂ امتیازسے نوازا گیا۔ اوکاڑہ کے راﺅ سکندر اقبال ؁ 2002؍ سے ؁ 2007ء تک وزیر دفاع رہے ہیں۔ میاں منظور وٹو سابق وزیر اعلی پنجاب، میاں محمد زمان وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی رہ چکے ہیں۔ اب ان کے بیٹے میاں یاور زمان صوبائی وزیر برائے آبپاشی ہیں۔ اس کے علاوہ اوکاڑہ کے سید صمصام بخاری وفاقی پارلیمانی سیکرٹری اطلاعات و نشریات، رانا اکرام ربانی اور اشرف خان سوہنا بھی صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔
مشہور صحافی آفتاب اقبال، جنید احمد، ادیب ظفر اقبال، مشہور ناولسٹ اور شاعر علی اکبر ناطق شاعر اقبال صلاح الدین اور پنجابی شاعر بابو راج علی کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔ محمد حنیف، جنہوں نے اوکاڑہ پر ایک مشہور کتاب "A CASE OF EXPLODING MANGOES" لکھی، بھی اسی ضلع سے ہیں۔ یہاں پائے جانے والے درختوں میں کیکر، اوکاں، بیری اور ونڈ پائے جاتے ہیں۔ اوکاڑہ میں آلو کی منڈی ایشیا کی سب سے بڑی منڈی مانی جاتی ہیں۔ یہاں کاشت کردہ فصلوں میں گندم، مکئی، ٹماٹر، چاول، کپاس، آم اور مالٹا سرفہرست ہیں۔
ایک تاریخی شخصیت میر چاکر خان رند، بلوچ قبیلے رند کا سردار تھا جس نے 1518ء میں اوکاڑہ کے علاقہ ستگھرہ کو اپنا مسکن بنایا۔ وہ اپنی فوج کے ہمراہ پنجاب پر حملہ آور ہونیوالی افغان فوجوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ شیر شاہ سوری اور مغل بادشاہ ہمایوں کی لڑائی میں انہوں نے شیر شاہ سوری  کا ساتھ دیا۔ 1656ء میں دہلی تخت پر بیٹھنے کے بعد مغل بادشاہ ہمایوں نے میر چاکر رند کو ایک بڑی جاگیر سے نوازا میر چاکر رند نے ستگھرہ میں ایک قلعہ بھی تعمیر کروایا جو حکومتی عدم توجہ کے باعث خستہ حالی کا شکار ہے۔ میر چاکر خان رند کی وفات 1565ء میں ہوئی۔ ان کا مقبرہ آج بھی ستگھرہ میں موجود ہے۔
احمد خان کھرل پنجاب کی دھرتی کا وہ سپوت ہے جس نے رنجیت سنگھ کے بعد انگریز کا اس علاقے میں راستہ روکا۔ اوکاڑہ کے گاؤں جھامرے سے تعلق رکھنے والے اس راٹھ نے مقامی قبائل کو ناصرف ایک جگہ اکٹھا کیا بلکہ انگریز کیخلاف بغاوت کے لیے آمادہ بھی کیا۔ اوکاڑہ کے اس سپوت کو 21 ستمبر 1857 کے دن شہید کیا گیا

زبان[ترمیم]

ضلع اوکاڑہ کے زیادہ تر لوگوں کی زبان پنجابی ہے۔ پنجابی کے ساتھ ساتھ ہریانوی زبان بھی مستعمل ہے جسے رانگڑی بھی کہتے ہیں۔

انتظامیہ[ترمیم]

اوکاڑہ شہر بطور صدر مقام ضلع اوکاڑہ 10 یونین کونسلوں میں منقسم ہے۔

صنعت و تجارت[ترمیم]

سیلہ چاول، آلو اور مکئی کی خرید و فروخت کے لیے اوکاڑہ عالمی منڈیوں میں ایک مقام رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے زرعی آلات پورے ملک میں مشہور ہیں۔

زراعت[ترمیم]

مکئی اور آلو کی پیداوار میں اوکاڑہ کو پاکستان کے دےگر تمام شہروں پر فوقیت حاصل ہے۔[2] اس کے علاؤہ اوکاڑہ میں گنا بھی بڑی مقدار میں کاشت کیا جاتا ہے اور گنے کی کٹائی کا سیزن شروع ہوتے ہی شوگر ملوں کے باہر گنے سے لدھی ٹرالیوں کی لمبی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اوکاڑہ میں سبزیاں اور پھل بھی کاشت کیے جاتے ہیں پھلوں کی کاشت کے حوالے سے اوکاڑہ کا مچل باغ بہت مشہور ہے سینکڑوں ایکڑ رقبے پر پھیلے اس باغ میں کئی قسم کے پھل کاشت کیے جاتے ہیں مثلا آم مالٹا آڑو کیلا وغیرہ۔ ضلع اوکاڑہ کے کاشت کار سبزیاں بھی کاشت کرتے ہیں لیکن بہت کم مقدار میں،ضلع اوکاڑہ کے متعلق مزید جاننے کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کریں۔








Wednesday 6 May 2020

Bangla Gogera


اسسٹنٹ کمشنر لارڈ برکلے کے دفتر میں آزادی کے بعد قائم کیا گیا سکول۔


گوگیرہ۔ گوگیرہ یونین کونسل ہے جو ضلع اوکاڑہ کا ایک بہت پرانا قصبہ ہے اس کا پورا نام بنگلہ گوگیرہ ہے جو 1857ء کی جنگِ آزادی میں اس علاقہ کا ہیڈ کوارٹر اور صدرمقام تھا۔ اسی وجہ سے اج اسے بنگلہ گوگیرہ کی بجاے صدر گوگیرہ بھی کہتے ہیں۔ آج بھی لارڈ برکلے کی قبر گوگیرہ میں موجود ہے جو اس وقت گوگیرہ کا کمشنر تھا لیکن کھرلوں کے ہاتھوں برٹش حکومت کو شکست ہوئی جس کا بدلہ لینے کے لیے انگریز حکومت نے ساہیوال اور اوکاڑہ کو الگ کر دیااور پھر منتگمری (ساہیوال )صدر نئے شہر منٹگمری (ساہیوال) میں منتقل کر دیا۔ یہ اوکاڑہ شہر سے 24 کلومیٹر فیصل آباد روڈ پر واقع ہے 
 ضلع اوکاڑہ کا ایک تاریخی قصبہ، اوکاڑہ سے فیصل آباد جانے والی سڑک پر 23 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے راوی کے کنارے پر واقع ہے۔ اسے مغل دورحکومت میں کھرل قبیلہ کی شاخ گوگیرہ نے آباد کیا تھا۔ یہاں مختلف اوقات پر کھرلوں، ہانسوں اور نکئی مثل کے سکھوں کا قبضہ رہا۔ مغلوں کے عہدآخر میں جب پنجاب طوائف الملوکی کا شکار تھا، تو یہاں کمر سنگھ نکئی قابض ہوا۔وہ 1780 ء میں اوپیرا کھرلوں کے ہاتھوں مسند والا کے قریب قتل ہوا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا وزیر سنگھ اس کا جانشین بنا۔ وہ بھڑوال کے نکئی سردار دل سنگھ کے ہاتھوں مرا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا وزیر سنگھ حاکم ہوا جو راجا رنجیت سنگھ کے قبضے تک علاقے کا جاگیردار رہا۔ جب پنجاب پر انگریزوں نے قبضہ کیا تو ابتداً اسے ضلعی صدر مقام بنایا گیا اور یہاں کچہری، ضلعی دفاتر اور بنگلہ وغیرہ کی عمارتیںتعمیر ہوئیں۔ جیل بھی بنی۔ جنگ آزادی 1857ء کے واقعات اور علاقے میں رائے احمد خاں کھرل کی بغاوت کی وجہ سے ضلعی صدر مقام گوگیرہ سے ختم کر کے منٹگمری (ساہیوال) منتقل کر دیا گیا۔ گوگیرہ کی اصل وجہ شہرت پنجاب کے مشہور مجاہد رائے احمد خاں کھرل شہید کی شخصیت ہے۔ انہوں نے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے شہادت کا رُتبہ حاصل کیا تھا۔ رائے احمد خاں کھرل کا تعلق گائوں جھامرہ سے تھا وہ یہاں 1803ء میں پیدا ہوئے۔ انگریز دشمنی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران جب دلی میں قتل و غارت کی گئی اور انگریزوں نے اس بغاوت کو کسی حد تک دبا دیا، تو یہ آگ پنجاب میں بھڑک اُٹھی۔ جگہ جگہ بغاوت کے آثار دکھائی دینے لگے۔ اس وقت برکلے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھا۔ اس نے کھرلوں اور فتیانوں کو اس وسیع پیمانے پر پکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کر دیا کہ گوگیرہ ایک بہت بڑ ی جیل میں بدل گیا۔ ادھر برکلے یہ کارروائی کر رہاتھا ،تو دوسری طرف احمد خان نے راوی پار جھامرہ رکھ میں بسنے والی برادریوں کو اکٹھا کر کے انگریزوں پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار کر لیا چنانچہ تمام مقامی سرداروں کی قیادت کرتے ہوئے رائے احمد خاں کا گھوڑ سوار دستہ رات کی تاریکی میں گوگیرہ جیل پر حملہ آور ہوا اور تمام قیدیوں کو چھڑالے گیا۔ احمد خان اور اس کے ساتھیوں کے علاوہ خود قیدی بھی بڑی بے جگری سے لڑے۔ اس لڑائی میں پونے چار سو انگریز سپاہی مارے گئے۔ اس واقعہ سے ا نگریز انتظامیہ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ رائے احمد خان گوگیرہ جیل پر حملہ کے بعد اپنے ساتھیوں سمیت آس پاس کے جنگلوں میں جا چھپا۔ برکلے نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے احمد خان کے قریبی رشتہ داروں ، عزیزوں اور بہو بیٹیوں کو حراست میں لے لیا اور پیغام بھیجاکہ وہ اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کر دے ،ورنہ اس کے گھر والوں کو گولی مار دی جائے گی۔ اس پر رائے احمد خان کھرل پہلی مرتبہ گرفتار ہوا، مگر فتیانہ، جاٹوں اور وٹوئوں کی بڑھتی ہوئی مزاحمتی کارروائیوں کے پیش نظر احمد خان کو چھوڑ دیا گیا البتہ اس کی نقل و حرکت کو گوگیرہ بنگلہ کے علاقے تک محدود کر دیا گیا۔ اس دوران رائے احمد خان نے خفیہ طریقے سے بیک وقت حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی، مگر افسوس کہ کمالیہ کا کھرل سردار سرفراز اور علاقے کا سکھ سردار نیہان سنگھ بیدی دونوں غداری کر گئے اور اس سارے منصوبے سے ڈپٹی کمشنر کو اطلاع کر دی۔ دراصل سردار سرفراز کی رائے احمد خان کھرل سے خاندانی دشمن تھی۔ اس مُخبری پر برکلے نے چاروں طرف اپنے قاصد دوڑائے۔ برکلے خود گھڑ سوار پولیس کی ایک پلٹن لے کر تیزی کے ساتھ راوی کے طرف بڑھا تاکہ رائے احمد خان کھرل کو راستے میں ہی روکا جاسکے۔ اس دوران حفاظتی تدابیر کے طور پر گوگیرہ سے سرکاری خزانہ، ریکارڈ اور سٹور تحصیل کی عمارت میں منتقل کر دیے گئے اورگوگیرہ میں انگریز فوجیوں نے مورچہ بندیاں کر لیں۔ کرنل پلٹین خود لاہور سے اپنی رجمنٹ یہاں لے آیا۔ اس کے ہمراہ توپیں بھی تھیں۔ رائے احمد خاں کھرل کی شہادت کے بعد جب برکلے اپنی فتح یاب فوج کے ساتھ خوشی خوشی جنگل عبور کر کے گوگیرہ چھائونی کی طرف جا رہا تھا کہ احمد خاں کے ساتھی مراد فتیانہ نے صرف تیس ساتھیوں کے ہمراہ اس کا تعاقب کیا اور کوڑے شاہ کے قریب راوی کے بیٹ میں چھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ برکلے کی تدفین بنگلہ گوگیرہ میں ہوئی ،جو اُن دنوں ضلعی ہیڈکوارٹر تھا۔ آج اس قبر کے کوئی آثار نہیں ملتے۔ ان واقعات کے بعد گوگیرہ سے ضلعی صدر دفاتر ختم کر دیے گئے اور نیا ضلع منٹگمری (ساہیوال) بنایا گیا، یوں آزادی کی تحریک میں اہم کردار ادا کرنے والے اس قصبہ کو پسماندگی کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ انگریزی دور میں چناب سے نہر نکالی گئی، تو اس کی ایک برانچ گوگیرہ کے قریب سے گزاری گئی، جو آج بھی گوگیرہ برانچ کہلاتی ہے۔

رائے احمد خاں کھرل

رائے احمد خاں کھرل
معلومات شخصیت
پیدائشسنہ 1805  ویکی ڈیٹا پر تاریخ پیدائش (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ساندل بار  ویکی ڈیٹا پر مقام پیدائش (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفاتسنہ 1857 (51–52 سال) 

رائے احمد خاں کھرل (1776ء-1857ء) 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں نیلی بار کے علاقے میں مقامی قبیلوں کی برطانوی راج کے خلاف بغاوت (گوگیرہ بغاوت) کے رہنما اور سالار تھے۔ [1] 21 ستمبر کو انگریزوں اور سکھوں کے فوجی دستوں نے گشکوریاں کے قریب 'نورے دی ڈل' کے مقام پر دورانِ نماز احمد خان پر حملہ کر دیا۔ احمد خان اور اس کے ساتھی بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔
تاریخ دان لکھتے ہیں کہ اگر راوی کی روایت کو کسی کھرل پر فخر ہے تو وہ رائے احمد خان کھرل ہے جس نے برصغیر پر قابض انگریز سامراج کی بالادستی کو کبھی تسلیم نہیں کیا تھا اور بالآخر ان کے خلاف لڑتے لڑتے اپنی جان تک دے ڈالی۔
رائے احمد خاں کھرل کا تعلق گاؤں جھامرہ سے تھا وہ یہاں 1803ء میں پیدا ہوئے۔ انگریز دشمنی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں جب دلی میں قتل و غارت کی گئی اور انگریزوں نے اس بغاوت کو کسی حد تک دبا دیا، تو یہ آگ پنجاب میں بھڑک اُٹھی۔ جگہ جگہ بغاوت کے آثار دکھائی دینے لگے۔ اس وقت برکلے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھا۔ اس نے کھرلوں اور فتیانوں کو اس وسیع پیمانے پر پکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کر دیا کہ گوگیرہ ایک بہت بڑ ی جیل میں بدل گیا۔ ادھر برکلے یہ کارروائی کر رہاتھا ،تو دوسری طرف احمد خان کھرل نے راوی پار جھامرہ رکھ میں بسنے والی برادریوں کو اکٹھا کر کے انگریزوں پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار کر لیا چنانچہ تمام مقامی سرداروں کی قیادت کرتے ہوئے رائے احمد خاں کا گھوڑ سوار دستہ رات کی تاریکی میں گوگیرہ جیل پر حملہ آور ہوا اور تمام قیدیوں کو چھڑالے گیا۔ احمد خان اور اس کے ساتھیوں کے علاوہ خود قیدی بھی بڑی بے جگری سے لڑے۔ اس لڑائی میں پونے چار سو انگریز سپاہی مارے گئے۔ اس واقعہ سے ا نگریز انتظامیہ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ رائے احمد خان گوگیرہ جیل پر حملہ کے بعد اپنے ساتھیوں سمیت آس پاس کے جنگلوں میں جا چھپا۔ برکلے نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے احمد خان کے قریبی رشتہ داروں ، عزیزوں اور بہو بیٹیوں کو حراست میں لے لیا اور پیغام بھیجاکہ وہ اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کر دے ،ورنہ اس کے گھر والوں کو گولی مار دی جائے گی۔ اس پر رائے احمد خان کھرل پہلی مرتبہ گرفتار ہوا، مگر فتیانہ ، جاٹوں اور وٹوئوں کی بڑھتی ہوئی مزاحمتی کارروائیوں کے پیش نظر احمد خان کو چھوڑ دیا گیا البتہ اس کی نقل و حرکت کو گوگیرہ بنگلہ کے علاقے تک محدود کر دیا گیا۔ اس دوران میں رائے احمد خان نے خفیہ طریقے سے بیک وقت حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی، مگر افسوس کہ کمالیہ کا کھرل سردار سرفراز اور علاقے کا سکھ سردار نیہان سنگھ بیدی دونوں غداری کر گئے اور اس سارے منصوبے سے ڈپٹی کمشنر کو اطلاع کر دی۔ دراصل سردار سرفراز کی رائے احمد خان کھرل سے خاندانی دشمن تھی۔ اس مُخبری پر برکلے نے چاروں طرف اپنے قاصد دوڑائے۔ برکلے خود گھڑ سوار پولیس کی ایک پلٹن لے کر تیزی کے ساتھ راوی کے طرف بڑھا تاکہ رائے احمد خان کھرل کو راستے میں ہی روکا جاسکے۔ اس دوران میں حفاظتی تدابیر کے طور پر گوگیرہ سے سرکاری خزانہ، ریکارڈ اور سٹور تحصیل کی عمارت میں منتقل کر دیے گئے اور گوگیرہ میں انگریز فوجیوں نے مورچہ بندیاں کر لیں۔ کرنل پلٹین خود لاہور سے اپنی رجمنٹ یہاں لے آیا۔ اس کے ہمراہ توپیں بھی تھیں۔ رائے احمد خاں کھرل کی شہادت کے بعد جب برکلے اپنی فتح یاب فوج کے ساتھ خوشی خوشی جنگل عبور کر کے گوگیرہ چھاؤنی کی طرف جا رہا تھا کہ احمد خاں کے ساتھی مراد فتیانہ نے صرف تیس ساتھیوں کے ہمراہ اس کا تعاقب کیا اور کوڑے شاہ کے قریب راوی کے بیٹ میں چھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ برکلے کی تدفین بنگلہ گوگیرہ میں ہوئی ،جو اُن دنوں ضلعی ہیڈکوارٹر تھا۔ آج اس قبر کے کوئی آثار نہیں ملتے۔



1849
ء میں انگریزوں نے سکھ حکمرانوں سے اقتدار چھین کر جب پنجاب پر قبضہ کر لیا تو راوی کے علاقے سے کھرل، فتیانہ، کاٹھیہ اور دیگر خوددار خاندانوں کی مزاحمت پر قابو پانے کے لیے پاکپتن، اوکاڑہ، منٹگمری (موجودہ ساہیوالگوگیرہ اور ہڑپہ کے علاقوں پر مشتمل ایک ضلع بنایا گیا جس کا صدر مقام پہلے پاکپتن اور پھر گوگیرہ کو رکھا گیا۔

انگریزوں کا پنجاب پر قبضہ

ء کی جنگ آزادی تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑ گئی ہے لیکن رائے احمد خان کھرل شہید کا غیرت مند کردار تاریخ میں ایک علامت کے طور پر ابھرا ہے۔ نامساعد حالات اور قلیل ترین وسائل ہونے کے باوجود انہوں نے انگریز سامراج کی پالیسیوں سے 81 سال کی عمر میں بغاوت کی۔ 1776ءکو جھامرہ ضلع فیصل آباد میں رائے نتھو خاں کے گھر پیدا ہونیوالے رائے احمد خاں نے انگریزی سامراج کی پالیسیوں کو للکارا اور ماننے سے انکار کر دیا اور دوسرے فتیانہ اور وینیوال قبیلوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیا اور انہوں نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔ رائے احمد خان کو قابو کرنے کے لیے انگریز نے گوگیرہ بنگلہ کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔ انگریزی فوجوں نے مجاہدین کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی اور گوگیرہ بنگلہ کی جیل میں بند کرنا شروع کر دیا۔ کچھ مجاہدوں کو دہشت پھیلانے کے لیے پھانسی بھی لگا دیا۔ ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ نواب بہاولپور نے اسلحہ کی صورت میں مجاہدوں کی مدد کی تھی۔ جن قبیلوں نے انگریز کا ساتھ دیا ان کو انعامات ‘ القابات اور جاگیروں سے نوازا گیا۔ مئی جون‘ جولائی کے مہینوں میںگھمسان کی جنگ جاری رہی۔ گوگیرہ بنگلہ میں مجاہدین کو قید میں رکھا گیا۔ 26 جولائی 1857ءکو رائے احمد خان نے اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ جیل پر حملہ کر کے قیدیوں کو چھڑا لیا۔ جس میں رائے احمد خان کھرل بھی زخمی ہوا۔ 16 ستمبر کو کمالیہ میں تمام زمینداروں کا ایک اجلاس ہوا اگر اجلاس میں آنیوالے سرداروں نے رائے احمد خان کا ساتھ دینے کا وعدہ تو کیا لیکن ان میں سے کسی نے اس اجلاس کی مخبری انگریز کو بھی کر دی۔ 17 ستمبر کو اسسٹنٹ کمشنر برکلے کی انگریزی فوجوں نے جھامرے پر چڑھائی بھی کر دی لیکن رائے احمد خان کھرل گرفتار نہ ہو سکا۔ لیکن گاﺅں کے بچوں اور عورتوں کو گرفتار کر کے گوگیرہ جیل میں بند کر دیا۔ اور تمام مال مویشی کو قبضہ میں لے لیا۔ گوگیرہ‘ چیچہ وطنی‘ ہڑپہ‘ ساہیوال میدان جنگ کی شکل اختیار کر گئے۔ 21 ستمبر 1857ءکو ایک بڑا معرکہ ہوا۔ انگریز فوج کے پاس جدید اسلحہ تھا۔ اس معرکہ میں رائے احمد خان شہید ہو گئے وہ اس وقت عصر کی نماز ادا کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ سردار سانگ بھی شہید ہو گئے۔ 22 ستمبر کو برکلے کا آمنا سامنا دریائے راوی کے کنارے پر مجاہدین کے ساتھ ہو گیا۔ جس میں مراد فتیانہ اور سو جا بھدرو کے ہاتھوں برکلے مارا گیا۔ گورا فوج نے ان کو پکڑ کر کالے پانی بھجوا دیا۔

نیا ضلع بننے کے بعد کے واقعات

صدر مقام میں ضلع کچہری، بخشی خانہ اور جیل تعمیر کی گئی۔
گوگیرہ کے بالمقابل راوی کے دوسرے کنارے پر واقع گاؤں جھامرہ میں کھرل قبیلے کا سردار احمد خان کھرل رہائش پزیر تھا۔
انگریز سرکار کی جانب سے صدر مقام میں لارڈ برکلے نامی گورے کو اسسٹنٹ کمشنر تعینات کیا گیا تو اُس نے علاقے کے سرداروں کو طلب کیا۔
معروف تاریخ دان محمد حسن معراج لکھتے ہیں کہ جون کی ایک صبح، گوگیرہ میں تعینات انگریز افسر برکلے نے علاقے کے معتبر سرداروں کو طلب کیا۔ راوی کے اس پار سے احمد خان کھرل اور سارنگ خان، برکلے کو ملے۔ انگریز افسر نے بغاوت سے نبٹنے کے لیے گھوڑے اور جوان مانگے۔ احمد خان نے جواب دیا؛
"صاحب، یہاں کوئی بھی اپنا گھوڑا، عورت اور زمین نہیں چھوڑتا" اور اس کے بعد واپس چلا آیا۔ یہیں سے اصل جنگ شروع ہوئی۔ گوگیرہ میں انگریز دور کی عدالتوں کی عمارت جو اباسکول میں تبدیل ہو چُکی ہے
اگلے کچھ عرصہ میں انگریز نے علاقے کے بہت سے لوگوں کو جیل میں ڈال دیا جس کے نتیجہ میں احمد خان کھرل نے تمام قبائل کو متحد کرکے 26 جولائی 1857ء کو گوگیرہ جیل پر حملہ کرتے ہوئے تمام قیدیوں کو رہا کروایا۔
انگریزوں کے صبر کی انتہا ہوئی تو احمد خان بھی زیر عتاب ٹھہرے۔ انگریز فوج نے اُن کی گرفتاری کے لیے جھامرے پر حملہ کیا۔ سردار نہ ملا تو بستی کو آگ لگا کر عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا۔
بے گناہوں پر حملہ اس سردار کو للکار تھی سو اُس نے دیگر سرداروں کے ساتھ مل کر انگریز چوکیوں پر ایک ساتھ حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا جس کی کمالیہ کے سردار کمال کھرل نے مخبری کر دی۔
21 ستمبر کو انگریزوں اور سکھوں کے فوجی دستوں نے گشکوریاں کے قریب 'نورے دی ڈل' کے مقام پر دورانِ نماز احمد خان پر حملہ کر دیا۔ احمد خان اور اس کے ساتھی بڑی بہادری سے لڑے اور انگریز فوج کے کم و بیش بیس سپاہی مار دیے۔
اس جنگ میں احمد خان کھرل، ان کا بھتیجا مراد کھرل اور سارنگ کھرل بھی شہید ہو گئے۔ جھامرہ میں احمد خان کھرل کا دربار
انگریز نے ساہیوال میں اپنے افسر برکلے کی ایک یاد گار بنوائی جو آج بھی یہاں موجود ہے۔

رائے احمد خاں کھرل

دریا کے ساتھ ساتھ چلیں تو سید والہ سے آگے جھامرہ کا قصبہ ہے۔ اس قصبے میں ایک مزار ہے اور صاحب مزار اب صرف، پنجاب کو یاد کر کے، آہیں بھرنے والوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ کہنے کو تو اس سرہنگ زادے کی شہرت کا علاقہ، دریا کے دونوں جانب پھیلا ہے مگر بہادری کی سرحد نہیں ہوتی اور روایت جغرافیہ کو نہیں مانتی۔ اب ریل جہاں رکتی ہے اور جہاں نہیں رکتی ان تمام اسٹیشنوں کے آس پاس کھرلوں کی کہانیاں ہیں۔ زمین کی بندر بانٹ، ضمیر کی تجارت، مخبریوں کے قصوں اور سمجھوتوں کی باتوں سے قطع نظر، ان جاٹوں نے بہادری کی کئی داستانیں تحریر کی ہیں۔ مرزا کے بعد اگر راوی کی روایت کو کسی کھرل پہ فخر ہے تو وہ رائے احمد خان کھرل ہے۔ تاریخ کے قبرستان میں، ان بہادروں کے ساتھ ساتھ، ان کے قصے کہنے والے بھاٹ بھی مدفون ہیں اور ان کے گائے ہوئے ڈھولے اور لکھے ہوئے وار بھی۔ مگر ایک وقت تھا کہ جب پنجاب کی مائیں، احمد خان کھرل کی کہانی لوریوں میں سنایا کرتی تھیں۔ کھرل اگنی کلا راجپوت ہیں اور اپنا تعلق رامائن کے کرداروں سے جوڑتے ہیں مگر کہانی میں کہیں مخدوم جہانیاں شاہ شریف بھی آتا ہے جہاں سے کھرلوں کی تاریخ مسلمان ہو جاتی ہے۔ کوئی نواب سعادت علی کھرل تھے جنہیں عالمگیر نے کمالیہ کی جاگیر دی اور یہ لوگ اس بار میں آباد ہو گئے۔ زمین کی سانجھے داریاں، مذہب کی تفریق سے گہری تھیں سو نکئی سردار گیان سنگھ، خزان سنگھ اور بھگوان سنگھ، رائے صالح خان کھرل کو اپنا بھائی گردانتے تھے۔ گیان سنگھ کی بیٹی، رنجیت سنگھ کی بیوی راج کور بنی تو کھرلوں نے بھی ڈولی کو کاندھا دیا۔ رائے صالح کا آخری وقت آیا تو اس نے سرداری کی پگڑی اپنے بیٹے کی بجائے اپنے بھتیجے احمد خان کے سر پہ رکھی اور کھرلوں کی سربراہی اسے سونپ دی۔ اسی دوران میں رنجیت سنگھ پنجاب کے تخت پہ بیٹھ گیا۔ جب پورا پنجاب سکھوں کے زیر نگین ہوا تو مہاراجا نے یہ معمول بنایا کہ ایک ایک علاقے میں جا کر عمائدین سے ضرور ملتا۔ سید والہ آمد پہ مصاحبین نے رائے احمد خان کا تعارف کروایا۔ مہاراجا نے احمد خان کو گلے لگایا اور اپنا بھائی کہا۔ سن سینتالیس ابھی بہت دور تھا۔ پنجاب کے حصول کی جنگ انگریزوں نے بہت سہج سہج کر لڑی۔ بھیرووال کے معاہدے سے لے کر لاہور میں جھنڈا لہرانے تک، مزاحمتوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ تھا اور احمد خان کھرل کی جدوجہد بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ پنجاب کیا گرا، بار کے باسیوں پہ قیامت ٹوٹ گئی۔ کچھ عرصے بعد ہندوستان میں سن ستاون ہو گیا۔ دلی اور میرٹھ میں جنگ کے شعلے بھڑکے تو بار میں بھی اس کی تپش محسوس ہوئی۔ انگریزوں نے شورش سے بچنے کے لیے پکڑ دھکڑ شروع کی۔ اس مقصد کے لیے جگہ جگہ جیل خانے بنائے اور باغیوں کا جوش ٹھنڈا کرنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔ ایسی ہی ایک جیل گوگیرہ میں بھی بنی۔ سن ستاون کی پہلی گولی مئی میں چلی تھی۔ جون کی ایک صبح، گوگیرہ میں تعینات انگریز افسر برکلے نے علاقے کے معتبر سرداروں کو طلب کیا۔ راوی کے اس پار سے احمد خان کھرل اور سارنگ خان، برکلے کو ملے۔ انگریز افسر نے بغاوت سے نپٹنے کے لیے گھوڑے اور جوان مانگے۔ احمد خان نے جواب دیا؛ ’’صاحب، یہاں کوئی بھی اپنا گھوڑا، عورت اور زمین نہیں چھوڑتا‘‘ اور اس کے بعد واپس چلا آیا۔
انگریز فوج نے احمد خان کھرل کی گرفتاری کے سلسلے میں جھامرے پہ حملہ کیا۔ سردار نہ ملا تو بستی کو آگ لگا دی اور بے گناہ عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا۔
اسی دوران میں گوگیرہ کے بہت سے خاندان قید کر لیے گئے۔ مقامی سرداروں نے حکام بالا کو لوگوں کی بے گناہی سے آگاہ کرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ آخرکار مراد فتیانہ اور بہلول فتیانہ جیسے جی داروں کی معیت اور احمد خان کی سرداری میں ان لوگوں نے 24 جولائی 1858 کو گوگیرہ جیل پہ حملہ کر کے قیدیوں کو رہا کروا لیا۔ سامراج کے صبر کی انتہا ہوئی تو رائے احمد خان بھی زیر عتاب ٹھہرا۔ گوگیرہ کے برکلے نے ساہیوال کے مارٹن کو لکھا جس نے ملتان کے میجر ہملٹن کو لکھا۔ تھوڑے ہی دنوں میں ملتان سے لاہور تک احمد خان کے چرچے، چھاؤنیوں اور کچہریوں تک جا پہنچے۔ اب جس عمر میں لوگ سمجھوتوں کی طرف مائل ہوتے ہیں، احمد کھرل اس وقت جنگ کی تیاری کر رہا تھا۔ جس وقت انگریز فوج جوان بھرتی کر رہی تھی، اس وقت اس کھرل سردار کی عمر 80 سے اوپر تھی۔
گوگیرا جس کا نام اب ساہیوال ہے کے اسسٹنٹ کمشنر انچارج نے ملتان ڈویژن کے کمشنر اور سپر نٹنڈنٹ کو بتاریخ 30 جنوری 1948ء لکھا کہ ’’7 ستمبر کی صبح کو مجھے مسٹر برکلے سے ایک مراسلہ ملا جس میں انہوں نے اطلاع دی تھی کہ وہ احمد خان کھرل کو راستہ میں روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے اور جس کشتی میں اس نے دریا پار کیا ہے وہ دریا کے کنارے ایک ایسی کھاڑی میں لنگر انداز ہے جہاں ہماری بندوقوں کی گولیاں نہیں پہنچ سکتی ہیں۔ وہاں پر تعینات چوکیدار نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ کشتی کو کسی حالت میں واپس نہیں لے جانے دے گا چونکہ اسے اس کے متعلق سخت احکامات ملے ہوئے ہیں۔ احمد خاں اس علاقہ کا بادشاہ بنا بیٹھا ہے۔ وہ سردار خود مسٹر برکلے کے پاسے حاضر ہوا اور ان کے ڈانے دھمکانے کے جواب میں اسے کہنے لگا کہ اس نے حکومت برطانیہ کی اطاعت کو رد کر دیا ہے اور اب خود کو شہنشاہ دہلی کی رعایا تسلیم کرتا ہے جس سے اسے تمام ملک میں بغاوت کرانے کے احکامات ملے ہیں۔ اس کے بعد اس کے ساتھیوں نے گولا باری شروع کر دی جس کا جواب ہماری گھوڑ سوار فون نے دیا۔‘‘ احمد خان کھرل کی شہادت سے پہلے ہی دہلی کے شہنشاہ بہادر شاہ ظفر نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ احمد خان کھلر کے خلاف دس فوجی دستے کرنل پیٹن (ol Paton ) لفٹینٹ چیشٹر(t. Chichester) کیپٹن چیمبرلین (ap. Chamberlaine) کیپٹن سنو (apt. Snow) کیپٹن میک اینڈ ریو (apt. Macandrew) لیفٹینٹ نیوائل (t. Neville) اور اسسٹنٹ کمشنر برکلے کی کمان میں بھیجے گئے تھے۔ احمد خان کی شہادت 21 ستمبر 1857ء کو ہوئی۔ احمد خان کے ساتھیوں نے Lt. neville اور اسسٹنٹ کمشنر برکلے کو بھی مار دیا تب جا کر ہیں نومبر میں امن قائم ہوا۔ مراد فتیانہ نے برکلے کو مارا تھا

جنگ کی شروعات

1857
ء کی جنگ آزادی کے عظیم ہیرو رائے احمد نواز خان کھرل نے 21ستمبر کو حالت سجدہ میں یوم شہادت نوش کیا۔ 1776ء کو جھامرہ میں رائے نتھو خاں کے گھر پیدا ہونے والے کھرل قبیلے کے سردار رائے احمد نواز خاں نے 80سال کی عمر میں "ساوی" (رائے احمد خان کی گھوڑی کا نام) کی لگام تھامی اور انگریز سامراج پر ہلا بول دیا۔ راوی بار میں آباد سیال، فتیانہ، وہنی وال اور وٹو قبائل نے وطن کے اس عظیم بوڑھے سپوت کی قیادت میں عشق و وفا کی انمٹ داستانیں رقم کیں۔ جون کی ایک صبح، گوگیرہ میں تعینات انگریز افسر برکلے نے علاقے کے معتبر سرداروں کو طلب کیا اور بغاوت سے نپٹنے کے لیے ان سے گھوڑے اور جوان مانگے۔ رائے احمد نواز خان کھرل نے برکلے کو جواب دیا کہ ”صاحب، یہاں کوئی بھی اپنا گھوڑا، عورت اور زمین نہیں چھوڑتا‘۔
تہی دست قبائل کا یہ 80 سالہ سردار جس وقت قومی غیرت کا نشاں بنے سامراج کے سامنے سینہ سپر کھڑا تھا۔ عین اسی وقت کچھ درگاہوں کے سجادہ نشین جاگیروں اور نقدی مال و زر کے عوض قومی غیرت و حمیت انگریز سامراج کے قدموں میں نچھاور کیے جا رہے تھے۔

پنجاب میں انگریزوں کے مددگار

وکیل انجم اپنی کتاب "سیاست کے فرعون" میں رقم طراز ہیں کہ "10 جون 1857ءکو ملتان چھاونی میں پلاٹون نمبر69کو بغاوت کے شبہ میں نہتا کیا گیا اور پلاٹون کمانڈر کو مع دس سپاہیوں کے توپ کے آگے رکھ کر اڑا دیا گیا۔ آخر جون میں بقیہ نہتی پلاٹون کو شبہ ہوا کہ انہیں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں فارغ اور پھر تھوڑا تھوڑا کرکے تہ تیغ کیا جائے گا۔ سپاہیوں نے بغاوت کر دی۔ تقریباً بارہ سو سپاہیوں نے بغاوت کا علم بلند کیا۔ انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے والے مجاہدین کو شہر اور چھاونی کے درمیان میں واقع پل شوالہ پر دربار بہاالدین زکریا کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی نے انگریزی فوج کی قیادت میں اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیرے میں لے لیا اور تین سو کے لگ بھگ نہتے مجاہدین کو شہید کر دیا۔ یہ مخدوم شاہ محمود قریشی موجودہ شاہ محمود قریشی کے لکڑدادا تھے اور ان کا نام انہی کے حوالے سے رکھا گیا ہے۔
کچھ باغی دریائے چناب کے کنارے شہر سے باہر نکل رہے تھے کہ انہیں دربار شیر شاہ کے سجادہ نشین مخدوم شاہ علی محمد نے اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیر لیا اور ان کا قتل عام کیا۔ مجاہدین نے اس قتل عام سے بچنے کے لیے دریا میں چھلانگیں لگا دیں کچھ لوگ دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے اور کچھ لوگ پار پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ پار پہنچ جانے والوں کو سید سلطان احمد قتال بخاری کے سجادہ نشین دیوان آف جلالپور پیر والہ نے اپنے مریدوں کی مدد سے شہید کر دیا۔ جلالپور پیر والہ کے دیوان عاشق بخاری انہی کی آل میں سے ہیں۔
مجاہدین کی ایک ٹولی شمال میں حویلی کورنگا کی طرف نکل گئی، جسے مہر شاہ آف حویلی کورنگا نے اپنے مریدوں اور لنگڑیال، ہراج، سرگانہ اور ترگڑ سرداروں کے ہمراہ گھیر لیا اور چن چن کر شہید کیا۔ مہر شاہ آف حویلی کورنگا سید فخر امام کے پڑدادا کا سگا بھائی تھا۔
اسے اس قتل عام میں فی مجاہد شہید کرنے پر بیس روپے نقد یا ایک مربع اراضی عطا کی گی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کو 1857 کی جنگ آزادی کے کچلنے میں انگریزوں کی مدد کے عوض مبلغ تین ہزار روپے نقد، جاگیر، سالانہ معاوضہ مبلغ ایک ہزار سات سو اسی روپے اور 8 چاہات بطور معافی دوام عطا ہوئی۔ مزید یہ کہ 1860 میں وائسرائے ہندنے بیگی والا باغ عطا کیا۔
مخدوم آف شیر شاہ مخدوم شاہ علی محمد کو دریائے چناب کے کنارے مجاہدین کو شہید کرنے کے عوض وسیع جاگیر عطا کی گئی۔
جانگلی علاقے میں اس بغاوت کا سرخیل رائے احمد خان کھرل تھا جو گوگیرہ کے نواحی قصبہ جھامرہ کا بڑا زمیندار اور کھرل قبیلے کا سردار تھا۔ احمد خان کھرل کے ہمراہ مراد فتیانہ، شجاع بھدرو، موکھا وہنی وال اور سارنگ کھرل جیسے مقامی سردار اور زمیندار تھے۔
جب درگاہوں کے سجادہ نشینوں کی طرف سے مجاہدین آزادی پر زمین تنگ کر دی گئی، ایسے وقت میں راوی بار میں رائے احمد نواز خان کھرل کا وجود ان کے لیے سایہ عاطفت ثابت ہوا۔۔ رائے احمد نواز خان کھرل نے نہ صرف انگریز افسر برکلے کو گھوڑے اور جوان دینے سے انکار کیا، بلکہ معرکہ کورنگا سے بچ جانے والے مجاہدین کو بھی پناہ دی۔ ادھر جولائی کے پہلے ہفتے دریائے ستلج کے کنارے آباد وٹو قبیلے نے انگریز سرکار کو لگان ادا کرنے سے انکار کیا تو انگریز نے ان پر چڑھائی کر دی۔ ان کے مال مویشی ہانک کر لے گئے اور بستیوں کو آگ لگا دی۔ اسی دوران میں گوگیرہ کے بہت سے خاندان قید کرلئے گئے۔ انگریز کے اس اقدام کی خبر جب رائے احمد خان کھرل کو پہنچی تو ان کا خون کھول اٹھا۔ اور انہوں نے جیل توڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ گوگیرہ بنگلہ کی جیل میں کھرل سردار کے مجاہدین بھی قید تھے۔ چنانچہ 26 جولائی 1857ءکو رائے احمد خان کھرل نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جیل پر حملہ کر دیا اور قیدیوں کو چھڑا لیا۔ اس معرکہ میں رائے احمد خان کھرل خود بھی زخمی ہوا۔ گوگیرہ جو اس وقت ضلعی ہیڈ کوارٹر تھا۔ اس کی جیل توڑنے پر سامراج کے ہاں تھرتھلی مچ گئی۔ گوگیرہ کے برکلے، منٹگمری (ساہیوال) کے مارٹن اور ملتان کے میجر ہملٹن کی نیندیں اڑگئیں۔
جون، جولائی کے مہینوں میں جنگ زوروں پر رہی۔ منٹگمری گزٹ لکھتا ہے کہ ”احمد خان کھرل ایک غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک، دلیر اور ذہن رسا کا مالک انسان تھا۔ اس کی قیادت میں ستلج اور راوی کے تمام نامور قبائل متحد ہو کر بغاوت میں شریک ہوئے ان کا ہیڈ کوارٹر راوی کے اس پار کوٹ کمالیہ تھا۔ “
اس اٹھنے والے طوفان کا پہلا نشانہ ضلعی صدر مقام گوگیرہ (موجودہ اوکاڑہ کے قریب واقع قصبہ) کے مقام پر واقع جیل بنی جس پر حملہ کر کے رائے احمد خان کھرل اور اس کے ساتھی بغاوت کے جرم میں بند کئی سو قیدیوں کو چھڑا کر گھنے جنگلوں میں روپوش ہو گئے۔ احمد خان کے پے در پے حملوں کی وجہ سے منٹگمری کا علاقہ (موجودہ ساہیوال ڈویڑن اور ضلع ٹوبہ) تقریباً تین مہینوں تک قبضے سے نکل گیا اور عملی طور پر رائے احمد خان کی عملداری قائم ہو گئی۔ رائے احمد خان کھرل نے 16 ستمبر کو کمالیہ کے تمام زمینداروں کو اکٹھا کیا اور انہیں جنگ آزادی میں شمولیت کی ترغیب دی۔
ادھر راوی بار کا یہ مجاہد وطن کی آزادی کے لیے تازہ خون کا بندوبست کر رہا تھا تو ادھر دلی میں ہندوستان کی غلامی پر مہر ثبت کی جاچکی تھی کہ میرٹھ اور دلی سے بھڑکنے والے جنگ آزادی کے شعلے بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری کے ساتھ راکھ ہو چکے تھے۔

غداری[ترمیم]

اگرچہ رائے احمد خان کھرل کے بلاوے پر آنے والے زمیندار کھرل سردار کی آواز پر لبیک کہہ رہے تھے لیکن ان میں سے ہی سرفراز کھرل نامی ایک شخص میر جعفر و میر صادق کی تاریخ دہرانے کو بھی بے چین بیٹھا تھا۔
رات نے جیسے ہی سیاہ چادر اوڑھی، کمالیہ کے سرفراز کھرل نے میر جعفروں کی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کے اضافہ کے لیے گھوڑی کا رخ برکلے کے بنگلے کی جانب پھیر دیا۔ رات کے تقریباً ساڑھے گیارہ بجے تھے، جب سرفراز نے برکلے کو جگا کر رائے احمد خان کھرل کے اکٹھ کی روداد سنائی۔ صبح ہوتے ہی برکلے نے جھامرہ پر چڑھائی کر دی۔ لیکن رائے احمد خان کھرل ہاتھ نہ آیا، تو انگریز نے گاﺅں کے بچوں اور عورتوں کو لے جا کرگوگیرہ جیل میں بند کر دیا۔ یہ خبر مجاہدین تک پہنچی تو موجودہ اوکاڑہ سے خانیوال تک کا علاقہ میدان جنگ بن گیا۔

سجادہ نشینوں کا رویہ[ترمیم]

ایک طرف اگر راوی بار میں آباد قبائل قومی حمیت کا نشان بنے اپنے 80سالہ کھرل سردار کی قیادت میں سینہ سپر تھے۔ تو دوسری طرف سجادگان و مخدومین حقِ نمک ادا کرتے ہوئے انگریز سامراج کی فوج کے ہمراہ تھے۔ جن میں دربار سید یوسف گردیز کا سجادہ نشین سید مراد شاہ گردیزی، دربار بہاالدین زکریا کا سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی، دربار فریدالدین گنج شکر کا گدی نشین مخدوم آف پاکپتن، مراد شاہ آف ڈولا بالا، سردار شاہ آف کھنڈا اور گلاب علی چشتی آف ٹبی لال بیگ کے علاوہ بھی کئی مخدوم وسجادہ نشین شامل تھے۔

شہادت[ترمیم]

21 ستمبر کے دن انگریز نے مخبری کی بنیاد پر گشکوری کے جنگل میں ”نورے دی ڈال” پر حملہ کیا۔ بار کے مجاہدین آزادی نے ایسی دادِ شجاعت دی کہ انگریز فوج توپخانے سے مسلح ہونے کے باوجود ظہر تک ڈیڑھ کوس پیچھے ہٹ چکی تھی۔ میدان قدرے صاف ہوا تو کھرل سردار نے نماز عصر کی نیت باندھ لی۔ ادھر برکلے بھی پنجابی سپاہیوں کے ہمراہ قریب ہی چھپا ہوا تھا۔ وہ دوسری رکعت تھی، جب برکلے نے گولی مارو کا آرڈر دیا، دھاڑے سنگھ یا گلاب رائے بیدی کی گولی جیسے ہی کھرل سردار کو لگی سردار سجدے میں گر گیا۔ رائے احمد خان کھرل اور سارنگ کھرل اپنے اکثر ساتھیوں کے ہمراہ اس معرکہ میں شہید ہوئے۔
انگریز رائے احمد خان کھرل کا سر کاٹ کر لے گئے۔ رائے احمد خان کھرل کے قصبہ جھامرہ کو ملیا میٹ کر دیا، فصلیں جلا دیں اور مال مویشی ضبط کر لیے۔ رائے احمد خان کھرل کے سر کو دن کے وقت گوگیرہ جیل کے سامنے لٹکا دیا جاتا اور رات کو جیل میں کڑے پہرے میں رکھا جاتا۔

بدلہ[ترمیم]

پہرے داروں میں ایک سپاہی جھامرے کا تھا۔ اس کی پہرے کی باری آ ئی تو اس نے سر کو گھڑے میں رکھا اور جھامرے پہنچ کر رات کے اندھیرے میں رائے احمد خان کی قبر تلاش کر کے کسی کو بتائے بغیر سر دفنا دیا۔ 22 ستمبر کو راوی کنارے مسٹر برکلے کا مجاہدین سے سامنا ہوا تو مراد فتیانہ، داد فتیانہ، احمد سیال اور سو جا بھدرو نے برکلے کو مار کر اپنے سردار کا حساب برابر کر دیا۔ گورا فوج نے ان مجاہدین کو گرفتار کر کے کالے پانی بھجوا دیا۔
افسوس کہ 1857ءکی جنگ آزادی میں انگریزوں کی بربریت کا نشانہ بننے والی اور گذشتہ 150 سال تک ظلم کی چکی میں پسنے والی اس علاقے کی برادریوں کی کوئی تاریخ مرتب نہیں کی گئی۔ بہت سے لوگ انگریز کے مظالم سے بچنے کے لیے کھرل سے ”کھر“ اور ”ہرل“ کہلانے لگے۔ ان علاقوں کی سرحدوں پر آباد کھرل اوردوسرے قبائل کی زمینیں چھین کر انگریزوں کے مخبروں کو الاٹ کر دی گئیں۔

یادگار[ترمیم]

انگریز چلے گئے، برصغیر آزاد ہو گیا لیکن حکومتِ پاکستان اور ساہیوال کی ضلعی انتظامیہ کے افسران کو آج تک اس بہادر مجاہد کے نام ایک چوک تک منسوب کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
دوسری طرف ضلعی انتظامیہ فیصل آباد نے نہ صرف گیٹاں والا چوک کو احمد خان کھرل چوک کا نام دیا بلکہ جڑانوالہ کی تحصیل انتظامیہ نے بھی سید والا سے ہو کر جھامرہ جانے والی سڑک پر اس شہید کی یادگار بنوائی ہے۔
پنجاب لوک سُجاگ ساہیوال میں احمد خان کھرل کی یاد گار تعمیر کروانے کے لیے پچھلے کئی سالوں سے مہم چلا رہی ہے۔
جڑانوالہ میں سید والا سے ہو کر جھامرہ جانے والی سڑک پر اس ہیرو کی یادگار بنائی گئی ہے ۔

HayataAbad Peshawar

 حیات آباد پشاور یہ خوبصورت نظارہ کارخانوں روڈ جسے جمرود روڈ بھی کہتے ہیں! کا نظارہ ہے یہ انڈسٹریل اسٹیٹس  ہے ۔یہاں صرف انڈسٹریل علاقہ ہیں،ی...