Thursday, 8 October 2020


 




حسن ابدال، ضلع اٹک،پاکستان کے صوبہ پنجاب

حسن ابدال، ضلع اٹک،پاکستان کے صوبہ پنجاب کی شمالی سرحد کے قریب واقع ایک تاریخی شہر ہے جوحسن نیکہ نورزئی عرف حسن ابدال 1757ء میں کی نسبت سے بنا؛ احمد شاہ ابدالی نے جب پنجاب پر حملہ کیا تو حسن نیکہ نورزئی عرف حسن ابدال اور ان کے قبیلے نے جی جان سے حسن ابدال کو فتح کرنے کی کوشش کی اور آخر حسن ابدال کو فتح کیا احمد شاہ ابدالی اس فتح سے اتنا خوش کہ اس علاقے کو حسن نیکہ کے حوالے کردیا اور خود آگے ہندوستان پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے ۔[حوالہ درکار] یہ جی ٹی روڈ پر شاہراہ قراقرم کے شروع پر واقع ہے۔ راولپنڈی سے لگ بھگ 40 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع اس قصبے کی موجودہ آبادی 50،000 سے زیادہ ہے۔ حسن ابدال اپنے خوبصورت تاریخی مقامات اور سکھ مذہب کی ایک اہم عبادت گاہ گردوارہ پنجہ صاحب کی وجہ سے مشہور ہے۔ ہر سال دنیا کے مختلف حصوں سے ہزاروں سکھ زاٰئرین بیساکھی کے میلہ پر گردوارہ پنجہ صاحب پر حاضر ہو کر اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔ دوسرے تاریخی مقامات میں مقبرہ لالہ رخ کے نام سے مشہور مغلیہ دور کا ایک مقبرہ اور بابا حسن ابدال کا حجرہ شامل ہیں۔ مقبرہ لالہ رخ کے نام سے مشہور تاریخی مقام چوکور احاطے میں واقع ایک قبر اور مچھلیوں والے تازہ پانی کے ایک چشمے پر مشتمل ہے۔ شہر حسن ابدال ایک پہاڑی کے دامن میں آباد ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس پہاڑی کی سب سے بلند چوٹی پر حسن نیکہ نام کے ایک ولی اللہ کا مقام قیام ہے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق انہی ولی اللہ کا اصلی نام بابا حسن ابدال ہے اور قصبے کا نام بھی انہی کے نام سے ماخوذ ہے [2]

ماضی میں اس حسین سرسبز وشاداب علاقے میں پاکستان فلم انڈسٹری نے کافی فلموں کی عکس بندی بھی کی۔ یہ علاقہ سرسبزوشادابی کے لحاظ سے بہت ہی حسین ہے ۔اس علاقے میں لاہور کے مغلیہ باغ کے طرز پر ایک باغ بھی موجود ہے  جسےشہنشاہ جہانگیر نے تعمیر کروایا تھا،۔

 


مقبرہ لالہ رخ (Tomb of Lala Rukh) ایک تاریخی مقبرہ ہے جو روایتی طور مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کی بیٹی شہزادی لالہ رخ سے منسوب ہے۔[1] تاہم یہ معلوم نہیں کہ یہاں کون دفن ہے۔[2]



حکیموں کا مقبرہ (Hakimon ka Maqbara) مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر وزیر اور مہتمم تعمیر خواجہ شمس الدین کا مقبرہ ہے۔ یہ مقبرہ شمس الدین نے خود اپنے لیے 1589ء میں تعمیر کروایا۔ مقبرہ حسن ابدال، ضلع اٹک پنجاب، پاکستان میں واقع ہے۔[

شیر شاہ کے عہد میں تعمیر کیا گیا  گرینڈ ٹرنک روڈ پر ٹیپو سلطان شہید چوک


سبزی منڈی اوور ہیڈ کراسنگ پل کے پاس بابا قندھاری کے مزار کی چوٹی کا نظارہ



یہ قصبہ(جو اب ایک شہر بن چکا ہے) حسن نیکہ عرف ( حسن ابدال ) جو افغان شہنشاہ احمد شاہ ابدالی کے فوج کا ایک سردار حسن گورگ (نورزئی) کے نام سے منسوب ہے مشہور چینی سیاح ھیون تسانگ جس کا اس مقام سے اٹھارویں صدی عیسوی میں گزر ہوا ایلاپاترا نامی ایک مقدس چشمے کا ذکر کرتا ہے جو ٹیکسلا سے 70 لی شمال مغرب میں ،یعنی حسن ابدال کے موجودہ مقام پر واقع تھا [3] - اس قصبے کا ذکر آئن اکبری میں اس حوالے سے آیا ہے کہ شمس الدین نے یہاں اپنے لیے ایک مقبرہ تعمیر کروایا تھا جس میں حکیم ابو فتح دفن ہے۔ کشمیر سے واپسی پر اکبر کے یہاں سے گذرنے کا بھی ذکر ہے [3]۔ ولیٔم فنچ نے اپنے ہندوستان کے سفر کی روداد میں سنہ 1808 اور1821 عیسوی کے حسن ابدال کو ایک خوشگوار قصبہ بیان کیا ہے جس کے قریب سے ایک ندی گذرتی ہے اور جہاں کے شفاف پانی کے چشموں میں تیرتی مچھلیوں کی ناکوں میں سنہری نتھوں کا ذکر ہے۔ پانی اس قدر شفاف تھا کہ چشمے کی تہ میں پڑا سکہ بھی صاف نظر آتا تھا[2]۔ اس جگہ کی تعریف میں اس نے چھوٹی سی پہاڑی کے دامن سے نکلنے والے چشمے کے انتہائی شفاف اور میٹھے پانی کا ذکر کیا ہے[2]۔ مختلف مغل بادشاہوں کے کشمیر کی جانب سفر پر اس جگہ سے ہو کر گذرنے کا ذکر ملتا ہے[4] ۔سکھ مذہب کے بانی گرونانک 1521ء میں حسن ابدال پہنچے۔ ان کی جائے قیام پر بعد میں ان کی یاد میں ایک گوردوارہ تعمیر کیا گیا۔ گوردوارے میں پتھرکی ایک چٹان پر ہاتھ کا ایک نشان کندہ ہے جسے باباگورونانک کی ایک کرامت کا نتیجہ بتایا جاتاہے[4]

گرینڈ ٹرنگ رود (بانی شیر شاہ سوری) کے پاس کچہ موڑ کے قریب ایک خوبصورت کنڈا جو ایک ریلوے سٹیشن کا منظر پیش کر رہا ہے۔
گرینڈ ٹرنک روڈ کے برلب (واہ گارڈن ہاوسنگ سوسائٹی)
 کچہ موڑ گرینڈ ٹرنک روڈ پر واقع ایک خوبصورت بلڈنگ پاک افغان ہوٹل 


گرینڈ ٹرنک روڈ پل سے لی گئی تصویر جس کی دوسری سمت ریلوے ٹریک بریج










ٹیکسلا موڑ کے قریب فونٹین چوک کے اطراف میں پہاڑوں کا خوبصورت نظارہ

کچہ موڑ ایوربیسٹ فوڈز 
گرینڈ ٹرنک روڈ سے نیچے کے طرف یہ راستہ پہاڑوں کے طرف نکلتا ہے اس راستہ پر مختلف انڈسٹری واقع ہیں جس میں ایوربیسٹ فوڈز ،ماربل فیکڑی اور خواجہ غریب نواز فلور ملز مھی واقع ہے۔

تعلیم[ترمیم ماخذ]

شہر میں کئی سرکاری پرائمری اسکولوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ایک ہائی اسکول کے ہر لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ایک اعلی ثانوی اسکول کی ہر اور خواتین کے لیے ایک ڈگری کالج ہے۔ یہاں نجی چلانے سکولوں کی ایک بڑی تعداد سرکاری کی کمی اسکولوں کے لیے قضاء ہیں۔

شہر کی حدود کے علاقے میں ایک مشنری بلایا پیش کانوے نٹ سکول واہ جو لڑکیوں کے لیے ہائی اسکول کی تعلیم کی پیشکش اسکول ہے۔

اوپر اسکولوں ہے کہ مقامی آبادی کے لیے ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ میں، ایک فوجی سٹائل لڑکوں رہائشی اسکول جس میں 8th سے 12th گریڈ کو لڑکوں اندراج ہے اور اصل میں انہیں ایک فوجی کیریئر کے لیے تیار کی بنیاد رکھی ہے۔ ڈائریکٹرز کے ایک بورڈ کی طرف سے کیڈٹ کالج حسن ابدال کا انتظام کیا جاتا ہے اور پنجاب کی صوبائی حکومت سے منسلک ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران علاقے جہاں کیڈٹ کالج حسن ابدال واقع ہے، ایک برطانوی ہوا پٹیاں اور بھرتی اور تربیت کا مرکز تھا،

اہم معلومات 

اٹک · پنڈی گھیپ · جنڈ · حسن ابدال · حضرو · فتح جنگ تحصیلیں:

اٹک  · حضرو  · حسن ابدال  · جنڈ، اٹک  · فتح جنگ  · پنڈی گھیب  · شہر: توت

پنڈسلطانی · جلالیہ · چھب · چھچھ · حاجی شاہ · نانگاوالی · ہدووالی قصبہ جات:

اٹک پل · سلسلہ کوہ کالا چٹا · قلعہ اٹک · گردوارہ پنجہ صاحب  ·  اہم مقامات: دریائے سندھ 

چولائی 9 سال 2020 کرونا اور سیکورٹی اِیشوز کے پیش نظر گردوارا پنجہ ساب میں انڑی




واہ گارڈن


Sunday, 10 May 2020

Okara Punjab



اوکاڑہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک مشہور شہر ہے جو ضلع اوکاڑہ کا صدر مقام ہے۔ اوکاڑہ کو منی لاہور یعنی چھوٹا لاہور کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ لاہور کے جنوب مغرب میں دریائے راوی سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک زرعی علاقہ ہے جو کپاس کی صنعت میں مشہور ہے۔ یہاں سے سیلہ چاول، آلو اور مکئی نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی برآمد ہوتے ہیں۔ اوکاڑہ سے نزدیک ترین بڑا شہر ساہیوال ہے۔ آبادی کے لحاظ سے اوکاڑہ کا شمار پاکستان کے بڑے اضلاع میں ہوتا ہے۔ اوکاڑہ میں ڈیری فارمز کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں اور یہاں کا پنیر ملک بھر میں مشہور ہے۔ اوکاڑہ کا پوسٹل کوڈ 56300 ہے۔
اوکاڑہ کے مصروف ترین روڈ میں (بے نظیر ایونیو، ایم اے جناح روڈ، ٹھنڈی سڑک،گورنمنٹ کالونی روڈ) شامل ہیں۔ اوکاڑہ کی مشہورترین اور تاریخی مارکیٹس میں (گول چوک مارکیٹ،ریل بازار،انارکلی بازار)سرفہرست ہیں

وجہ تسمیہ[ترمیم]

شہر کا نام اوکاں نامی درخت سے منسوب ہے۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں یہاں اوکاں کا جنگل ہوا کرتا تھا جس میں مسافر ٹھہرا کرتے تھے۔ اوکاڑہ کو اوکاں والا اور اوکاں اڈا بھی کہا جاتا تھا۔

تاریخ



؁ ء 1849میں پنجاب پر برطانوی قبضے کے بعد دو سال پاکپتن ضلعی ہیڈ کوارٹر رہا۔ ؁ 1851ء میں انگریزوں نے ایک نئے ضلع منٹگمری کی بنیاد رکھی جس کا ہیڈ کوارٹر گوگیرہ کو بنایا گیا۔ تب موجودہ ساہیوال، پاکپتن اور اوکاڑہ اسی ضلع کے حصے تھے۔ ؁ 1865ء میں ضلع کا ہیڈ کوارٹر ساہیوال (تب منٹگمری) میں شفٹ کر دیا گیا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک اوکاڑہ ضلع منٹگمری کا ایک چھوٹا سا شہر تھا۔

دی اربن یونٹ کے تحت اوکاڑہ پر تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق نہری نظام متعارف کروائے جانے سے پہلے اوکاڑہ ایک بنجر علاقہ تھا۔ 1913ء میں پہلے لوئر باری دوآب اور اس کے بعد پاکپتن اور دیپالپور کی نہروں نے اس علاقے کو کھیتی باڑی کا مرکز بنا دیا۔

ء 1918میں ریلوے لائن بچھنے سے اوکاڑہ کراچی اور لاہور سے جڑ گیا جبکہ ؁ 1925ء تک اوکاڑہ کو سڑکوں کے ذریعے سبھی بڑے شہروں کیساتھ جوڑا جا چکا تھا۔

؁ ء 1913میں اوکاڑہ کو ٹاؤن کمیٹی اور پھر ؁ 1930ء میں میونسپل کمیٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ میونسپل کمیٹی درجہ ملتے ہی اوکاڑہ کو تحصیل آفس اور پولیس اسٹیشن کی سہولیات بھی میسر ہوگئیں۔

ء؁ 1936 میں جب اوکاڑہ میں برلا گروپ نے ستلج ٹیکسٹائل مل کی بنیاد رکھی تو اوکاڑہ کے لیے معاشی ترقی کے دروازے کھل گئے اور اردگرد کے علاقوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شہر میں آکر آباد ہو گئی۔

؁ ء 1942میں یہاں مارکیٹ کمیٹی بننے کے بعد اوکاڑہ کو زرعی اجناس کی تجارت کے علاوہ سبزی اور فروٹ منڈی، غلہ منڈی، تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال، گورنمنٹ ہائی سکول (بوائز اینڈ گرلز)، ٹیلیفون ایکسچینج، پاور ہاؤس، میونسپل پارک اور پوسٹ آفس کی سہولیات بھی دستیاب ہوگئیں۔

اوکاڑہ کی آبادی کا بڑا حصہ ہندوؤں اور سکھوں پر مشتمل تھا جو تقسیم ہند کے بعد بھارت چلے گئے جن کی جگہ بھارت سے آئے مہاجر مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر آبادکاری کی گئی۔ ؁ 1967ء میں یہاں فوجی چھاؤنی قائم کی گئی۔

؁ ء 1982میں جب اوکاڑہ کو ضلع کا درجہ دیا گیا تب یہ دو تحصیلوں دیپالپور اور اوکاڑہ پر مشتمل تھا۔ ؁ 1988ء میں بابا فرید شوگر مل کے لگ جانے سے ضلع اوکاڑہ کو مزید معاشی تقویت ملی۔ یہ شوگر اب بھی پاکستان کی بڑی شوگر ملوں میں سے ایک ہے

جغرافیائی لحاظ سے اوکاڑہ کے مشرق میں قصور، مغرب کی طرف ساہیوال اور پاکپتن، شمال میں فیصل آباد اور شیخوپورہ سے جبکہ جنوب میں بہاولنگر واقع ہے۔ اس کے مشرق میں دریائے ستلج جبکہ مغرب میں دریائے راوی اور دریائے بیاس (جو اب مکمل طور پر خشک ہوچکا ہے) بہتے ہیں۔ یوں تو دریائے ستلج میں سال کا بیشتر حصہ پانی کی مقدار کافی کم دیکھنے کو ملتی ہے مگر اگست اور ستمبر کے مہینوں میں بارشوں اور بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے کے سبب اکثر طغیانی آجاتی ہے۔
ضلع اوکاڑہ اس وقت تین تحصیلوں پر مشتمل ہے جس میں تحصیل اوکاڑہ، تحصیل دیپالپور اور تحصیل رینالہ خورد شامل ہیں۔ ضلع اوکاڑہ کا رقبہ 4377 مربع کلومیٹر ہے۔ ؁ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق آبادی تقریباً 22،00،000 تھی جو اس وقت اندازہً 32،00،000 تک جاپہنچی ہے۔ یہاں کی تین تحصیلوں میں 5 ایم این اے اور 10 ایم پی اے موجود ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئی حالیہ حلقہ بندی کے تحت ضلع اوکاڑہ کو 140 یونین کونسلوں اور 7 مونسپل کمیٹیوں (اوکاڑہ، دیپالپور، رینالہ خورد، بصیر پور، حویلی لکھا، حجرہ شاہ مقیم اور منڈی احمد آباد) میں تقسیم کیا گیا ہے۔
تعلیمی لحاظ سے ضلع اوکاڑہ میں 12 ڈگری کالج، 5 ہائر سکینڈری سکول، 142 سکینڈری سکول، 151 مڈل سکول، 1257 پرائمری سکول جبکہ ایک یونیورسٹی بھی موجود ہے۔
اس علاقہ میں بسنے والی مشہور ذاتوں میں سید،بلوچ، شیخ، آرائیں، بودلہ، راﺅ، بھٹی، جٹ، کمیانہ،سیال، گجر، کمبوہ، وٹو، جوئیہ، ڈوگر اور کھرل شامل ہیں۔
اہم شخصیات میں مولانا محمد لکھوی کے بیٹے معین الدین لکھوی ہیں جو ممبر قومی اسمبلی رہے۔ انہیں ستارۂ امتیازسے نوازا گیا۔ اوکاڑہ کے راﺅ سکندر اقبال ؁ 2002؍ سے ؁ 2007ء تک وزیر دفاع رہے ہیں۔ میاں منظور وٹو سابق وزیر اعلی پنجاب، میاں محمد زمان وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی رہ چکے ہیں۔ اب ان کے بیٹے میاں یاور زمان صوبائی وزیر برائے آبپاشی ہیں۔ اس کے علاوہ اوکاڑہ کے سید صمصام بخاری وفاقی پارلیمانی سیکرٹری اطلاعات و نشریات، رانا اکرام ربانی اور اشرف خان سوہنا بھی صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔
مشہور صحافی آفتاب اقبال، جنید احمد، ادیب ظفر اقبال، مشہور ناولسٹ اور شاعر علی اکبر ناطق شاعر اقبال صلاح الدین اور پنجابی شاعر بابو راج علی کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔ محمد حنیف، جنہوں نے اوکاڑہ پر ایک مشہور کتاب "A CASE OF EXPLODING MANGOES" لکھی، بھی اسی ضلع سے ہیں۔ یہاں پائے جانے والے درختوں میں کیکر، اوکاں، بیری اور ونڈ پائے جاتے ہیں۔ اوکاڑہ میں آلو کی منڈی ایشیا کی سب سے بڑی منڈی مانی جاتی ہیں۔ یہاں کاشت کردہ فصلوں میں گندم، مکئی، ٹماٹر، چاول، کپاس، آم اور مالٹا سرفہرست ہیں۔
ایک تاریخی شخصیت میر چاکر خان رند، بلوچ قبیلے رند کا سردار تھا جس نے 1518ء میں اوکاڑہ کے علاقہ ستگھرہ کو اپنا مسکن بنایا۔ وہ اپنی فوج کے ہمراہ پنجاب پر حملہ آور ہونیوالی افغان فوجوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ شیر شاہ سوری اور مغل بادشاہ ہمایوں کی لڑائی میں انہوں نے شیر شاہ سوری  کا ساتھ دیا۔ 1656ء میں دہلی تخت پر بیٹھنے کے بعد مغل بادشاہ ہمایوں نے میر چاکر رند کو ایک بڑی جاگیر سے نوازا میر چاکر رند نے ستگھرہ میں ایک قلعہ بھی تعمیر کروایا جو حکومتی عدم توجہ کے باعث خستہ حالی کا شکار ہے۔ میر چاکر خان رند کی وفات 1565ء میں ہوئی۔ ان کا مقبرہ آج بھی ستگھرہ میں موجود ہے۔
احمد خان کھرل پنجاب کی دھرتی کا وہ سپوت ہے جس نے رنجیت سنگھ کے بعد انگریز کا اس علاقے میں راستہ روکا۔ اوکاڑہ کے گاؤں جھامرے سے تعلق رکھنے والے اس راٹھ نے مقامی قبائل کو ناصرف ایک جگہ اکٹھا کیا بلکہ انگریز کیخلاف بغاوت کے لیے آمادہ بھی کیا۔ اوکاڑہ کے اس سپوت کو 21 ستمبر 1857 کے دن شہید کیا گیا

زبان[ترمیم]

ضلع اوکاڑہ کے زیادہ تر لوگوں کی زبان پنجابی ہے۔ پنجابی کے ساتھ ساتھ ہریانوی زبان بھی مستعمل ہے جسے رانگڑی بھی کہتے ہیں۔

انتظامیہ[ترمیم]

اوکاڑہ شہر بطور صدر مقام ضلع اوکاڑہ 10 یونین کونسلوں میں منقسم ہے۔

صنعت و تجارت[ترمیم]

سیلہ چاول، آلو اور مکئی کی خرید و فروخت کے لیے اوکاڑہ عالمی منڈیوں میں ایک مقام رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے زرعی آلات پورے ملک میں مشہور ہیں۔

زراعت[ترمیم]

مکئی اور آلو کی پیداوار میں اوکاڑہ کو پاکستان کے دےگر تمام شہروں پر فوقیت حاصل ہے۔[2] اس کے علاؤہ اوکاڑہ میں گنا بھی بڑی مقدار میں کاشت کیا جاتا ہے اور گنے کی کٹائی کا سیزن شروع ہوتے ہی شوگر ملوں کے باہر گنے سے لدھی ٹرالیوں کی لمبی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اوکاڑہ میں سبزیاں اور پھل بھی کاشت کیے جاتے ہیں پھلوں کی کاشت کے حوالے سے اوکاڑہ کا مچل باغ بہت مشہور ہے سینکڑوں ایکڑ رقبے پر پھیلے اس باغ میں کئی قسم کے پھل کاشت کیے جاتے ہیں مثلا آم مالٹا آڑو کیلا وغیرہ۔ ضلع اوکاڑہ کے کاشت کار سبزیاں بھی کاشت کرتے ہیں لیکن بہت کم مقدار میں،ضلع اوکاڑہ کے متعلق مزید جاننے کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کریں۔








HayataAbad Peshawar

 حیات آباد پشاور یہ خوبصورت نظارہ کارخانوں روڈ جسے جمرود روڈ بھی کہتے ہیں! کا نظارہ ہے یہ انڈسٹریل اسٹیٹس  ہے ۔یہاں صرف انڈسٹریل علاقہ ہیں،ی...